اسلام آباد : وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ملک کو نقصان ہو، مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے، آپ دینا بھی چاہیں تب بھی نہیں لوں گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کررہا ہے، فل کورٹ میں سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کریں اپنے دلائل کو محدود رکھیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے یہ معاملہ سنا ہی نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تحریری جواب جمع
وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تحریری جواب جمع کرایا ، جس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس انڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔
جواب میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔
وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے نیچے قانون سازی کر سکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
جواب میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کےتحت کوئی اختیارسپریم کورٹ کاواپس نہیں ہوا، میرٹ پر بھی پارلیمنٹ قانون کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
چیف جسٹس کا وکیل خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ ماضی کو دفن کردیں ،جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خواجہ طارق رحیم سے مکالمے میں کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ماضی کو دفن کردیں ،عوام ہم سے 57ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتی ہے، آپ صرف متعلقہ ایکٹ پڑھیں، پارلیمنٹ کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہےہیں اس ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب جس ایکٹ کو آپ نے چیلنج کیا صرف وہ پڑھ کر سنائیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل خواجہ طارق سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب پہلے آپ مکمل طور پر یہ ایکٹ پڑھیں پھر اس پر بحث کریں، کیا جو کچھ ماضی میں ہوتا رہاوہی ہو ، یہ بتائیں کیا آپ تمام اختیارات ایک شخصیت کو دینےکےحامی ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواجہ صاحب ہم آپ کو بحث سے نہیں روک رہے ، ہم چاہتے ہیں خواجہ صاحب پہلے اس ایکٹ کو مکمل پڑھیں بحث کا آغاز ہو، ہم آپ کو پورا وقت دیں گے اور کچھ سوالات بھی کریں گے۔
پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور
سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست منظور کرلی ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پاکستان بار کونسل کی درخواست پر فل کورٹ بنا دیا ہے ، ہم میں سے کچھ لوگوں نےکیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، کیس کو حل کرنے کا بہتر حل یہ تھا کہ اس پر فل کورٹ بنایا جائے، فل کورٹ کے لئے تین درخواستیں بھی آئی تھیں۔
کیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں ، جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کونسی درخواست میں وکیل ہیں تو انھوں نے بتایا کہ میں راجہ عامر درخواست گزار کی جانب سے وکیل ہوں۔
جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا ہے آپ کیا دلائل دیں گے ، جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں تو جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اس میں پھردیگر رولز ہیں اس کا کیا ہوگا؟ وکیل نے بتایا اس وقت سپریم کورٹ کے 1990 کے رولز ہیں جن کے ذریعے کام ہوتا ہے۔
خواجہ طارق رحیم کی جانب سے قانون پر حکم امتناع دینے پر مبنی حکم نامے کا حوالہ دیا گیا تو چیف جسٹس نے طارق رحیم کو روک دیا کہ ماضی کی باتیں نہ کریں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 184 تھری میں اپیل کاحق دیا گیا، فل کورٹ اگر قانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کےجواب دیں، جس پر خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل سے متعلق درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فل کورٹ بنایا، ماضی میں جو ہوا اسکوبھول جائیں،نیا اسٹارٹ ہے، اب نئے طریقے سے چلیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ہمارے سوال نوٹ کرلیں جواب بھلے سے بعد میں دیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ کا تسلسل نہ ٹوٹے ، خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ آرٹیکل191 سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے اختیارات دیتاہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہےہیں 1980کےرولز آئین سے متصادم ہیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے خواجہ صاحب کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین وقانون کے مطابق کےالفاظ کی حیثیت نہیں ،آپ کادلائل تسلیم کرلیں تواسکا مطلب یہ ہے جو روایتی طورپر ہوتا آیا کیا اسے قبول کرلیں، ایک شخص بینچز بنائے اور اس طرح فیصلوں پر اثر انداز ہو تو کیا آپ یہی روایتی طریقہ چاہتے ہیں، شائد یہ غلطی تھی جسے پارلیمنٹ درست کرنا چاہتی تھی۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کے خیال میں کون ہے جسے نہیں سنا جارہا آپ کو یا درخواست گزار کو، آپ یہاں کس درخواست گزار کی ترجمانی کررہے ہیں، میں آپ کی زندگی آسان بناناچاہتاہوں صرف سوالات نوٹ کریں بعد میں جواب دیں، ہم چاہتے ہیں صرف آپ اپنے کیس پر دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا یہ ایکٹ سیکشن 4کے برخلاف ہے کچھ بولیں تاکہ ہم اسے نوٹ کریں ، جس پر وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز برابر ہیں،بینچز کس طرح بنائے جائیں یہ فل کورٹ کا اختیار ہوناچاہیے پارلیمنٹ کا نہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں ایک شخص کےبینچ بنانے کےاختیارات غیر آئینی ہیں؟ تو خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ نہیں میں ایسا نہیں کہہ رہا، یہ اختیارات 1980کےرولز کےتحت موجودہیں۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا پارلیمنٹ مداخلت کرسکتی ہے، جس سے سپریم کورٹ کی آزادی متاثرہو، آئین کے مطابق آزاد عدلیہ بنیادی حقوق میں شامل ہے کیا پارلیمنٹ بل واسطہ یا بلاواسطہ یہ حق چھین سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے آپ نے اس قانون کو چیلنج کیا ہے ہمیں بتائیں اس میں غلط کیا ہے ، جو ہم نے قانون پڑھا ہے اس کے تحت آپ ہم سے سوال کےبجائے بتائیں کیا غلط ہے، سیکشن 5کےتحت پارلیمنٹ اپنے اختیارات سےتجاوز کررہی ہے ،سیکشن 5پر پارلیمنٹ کے تجاوز سےمتعلق دلائل دیں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ججز کےسوالات کے فوری طور پر جواب دینے سے روک دیا اور کہا آپ ججز کے سوالات نوٹ کرتے ہیں ،اپنے دلائل اپنی ترتیب سے جاری رکھیں ، آخر میں ججز کے سوالات کے جواب دیں۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ پر بھی کچھ ائینی قدغیں ہیں، رولز اور پروسیجر بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے اس پر قانون سازی پارلیمنٹ نہیں کر سکتی ، پارلیمنٹ پاکستان کے لئے اور صوبوں کے لئے قانون سازی کر سکتی ہے، پارلیمنٹ آرٹیکل 192 کے تحت خصوصی قانون سازی بھی کر سکتی ہے۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بینچ کی تشکیل سپریم کورٹ کاہی اختیار ہے ، سپریم کورٹ اپنے لئے رولز بنا سکتی ہے جس کا کام کارکردگی کو ریگولیٹ کرنا ہو ، پارلیمنٹ عدلیہ کے دائرہ کار اور اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی ، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جس قانون کی بات کر رہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے دائرہ کار ،اختیار کے بارے میں نہیں۔
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی ، چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ بتائیں پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں تو انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب کیایہ قانون بناناپارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا،چیف جسٹس نے بھی کہا کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔
خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ سپریم کورٹ کو انتظامی طور پر کیسے چلانا ہے یہ فیصلہ خود کورٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز بیٹھ کر رولز بناتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ ایک ہی آفس کو اتنے اختیارات ہونے کو سپورٹ کرتے ہیں؟ تو وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بنچز کیسے تشکیل دینے ہیں یہ فیصلہ خود سپریم کورٹ کے کرنے کا ہے، سپریم کورٹ کئی دہائیوں سے اپنے رولز خود بناتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہیں، کیا جہاں اختیار ایک یا تین ججز کا ہے وہ غیر آئینی ہے؟جس پر خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا کہ میرا نکتہ یہ ہے کہ رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار ہے پارلیمان کا نہیں تو جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بنچ تشکیل سے متعلق کمیٹی کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے؟
جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک ہی بندہ بینچ بنائے؟ آپ کو نہیں لگتا پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے موکل کی کوئی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں، سیکشن 5 کے تحت پارلیمنٹ اپنے اختیارات سےتجاوز کررہی ہے تو اس پر دلائل دیں، تو خواجہ طارق رحیم نے بتایا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کیا ایسا قانون بنانے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں تھی؟ جسٹس منصورعلی شاہ نے بھی استفسار کیا کہ یہی رولز سپریم کورٹ بنائے تو درست پارلیمنٹ نےقانون بنا دیا توغلط؟ کیا یہ کہ رہے ہیں؟ تو خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کہا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کی بحث تو یہی ہے۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز بنا سکتی ہے یہ عدلیہ کی خود مختاری ہے، پارلیمنٹ کا اس میں مداخلت کرنا۔ کیاسپریم کورٹ کی خودمختاری کےمنافی نہیں؟ سپریم کورٹ کا خود کو ریگولیٹ کرنا اس کا بنیادی حق ہے، پارلیمنٹ کا اس میں مداخلت کرنا کیا اس کی نفی نہیں ہے؟
جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کہ کیا آئینی طورپر ایسا سوچا جاسکتاہے کہ تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دیئےجائیں،کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات استعمال کرسکتی ہے ،کیا آئینی طورپر یہ سوچاجاسکتاہےکہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کےاختیارات استعمال کرے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ ججز کے سوالات اس کارروائی کو مشکل بنا رہے ہیں،سوالات میں اصل موضوع گم ہورہا ہے، آپ دلائل جاری رکھیں اورسوالات کا فوری جواب دینے سے گریزکریں، ہم یہاں بحث کرنے نہیں بیٹھے پہلے بھی کہا سوال نوٹ کرلیں،میری یا آپ کی ذاتی سوچ کامعاملہ نہیں ہے ، آپ نے آئین کے مطابق ایک بھی دلائل نہیں دیا۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے سوموٹو نہیں لیا ،کسی سے کوئی اختیار چھینا نہیں جارہا بلکہ تجویز کئےجارہےہیں، اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کیلئے جنگ لڑ رہےہیں، یہ میرے حقوق کی بات نہیں بلکہ عوام اور آئین کی بات ہے، ابھی ہر سوال کا جواب دیں گے تو بعد میں موقع نہیں مل سکےگا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل خواجہ طارق سے مکالمے میں کہا کہ آپ بتائیں یہ ایکٹ عوامی حیثیت میں منظورہوا یا ذاتی حیثیت میں ،جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین و قانون بناتی ہے کیا آپ پارلیمنٹ کو محدود رکھناچاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے نظریے کو چھوڑ دیں ،آئینی امور پر بات کرلیں،ایکٹ سے میری مرضی لےلی گئی ہے ،اگر آپ درخواست دیں اورمیں کہوں کیس نہیں لگاتا یہ میری مرضی ہے، 10سال آپ کا کیس پڑا رہتا ہے یہ میری مرضی ہوتی کیا ایسا ہوناچاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ٹیکس پیر اس عدالت کےلئے پیسےدیتے ہیں کیا کیس میری مرضی سے چلے گا؟ آپ کا آئین اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے ، سب سے پہلے ہم اللہ کو جواب دہ ہیں پھر کسی اور کو ، ابھی تک ایک لفظ نہیں سنا کہ یہ ایکٹ آئین کی کس شق سے متصادم ہے، ریکوڈک کیس میں ملک کو اتنا نقصان ہوا کیونکہ ہم نے ایڈوائزری جوڈیرکشن استعمال کی، ملک کو 6.2بلین ڈالر کا نقصان ہوگیا اورہم کہیں چیف جسٹس کی ذات کو نقصان نہ پہنچے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ قانون کو اڑادیں گے میں تو طاقتور بن جاؤں گا ، کیا آپ چیف جسٹس کو مکمل طور پر احتساب سے بالا بناناچاہتے ہیں ، قانون اچھا بنائے یا نہیں ہم پارلیمنٹ کی بےتوقیری نہیں کریں گے، آئین پر ججمنٹس حاوی نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ میں وکیل خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر دوسری درخواست کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔
جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے اپیل کا حق اس کو فراہم کیاجارہاہے جس کو پہلے یہ حق نہیں تھا، اس سے پہلے ایک شخص کے پاس اختیارات تھے ، پارلیمنٹ نے ریگولیٹ کرکے ایک کے بجائے تین افراد کو وہ طاقت دیدی ، اس ایکٹ کی وجہ سے کس کا بنیادی حق متاثر ہورہاہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کے ریمارکس
جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ یہ کیوں نہیں دیکھ رہے کہ ایک کے بجائے تین لوگوں کو اختیار مل رہاہے، ساری دنیا میں ایسا ہورہاہے ، کہیں بھی ایک شخص کے پاس اختیار نہیں۔
میں نے یہ حلف اٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کا تابع ہوں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ میں نے یہ حلف اٹھایا ہے کہ آئین اور قانون کا تابع ہوں، میں نےیہ حلف نہیں اٹھایا کہ ججمنٹ آف سپریم کورٹ کا تابع ہوں ، ملک میں کئی بار مارشل لا بھی لگے میں ان ججمنٹ کا تابع نہیں ہوں، 57ہزار کیسز پینڈنگ میں ہیں، اگر یہ ایکٹ برا ہے تو آئین کے دائرے میں اس پر دلائل دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا امتیازصدیقی صاحب بتائیں آئین کے آرٹیکل 4کی خلاف ورزی کیسے ہوئی؟ وکیل امتیاز صدیقی نے بتایا کہ ایکٹ سے ہمارے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کررہے ہیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس کے اختیارات ختم کررہے ہیں تو میں جانو اور پارلیمنٹ جانے، میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں نے آپ کو اپنا وکیل نہیں کیا۔
بتائیں ایکٹ سےکون سے بنیادی حقوق سلب ہوئے؟چیف جسٹس کا سوال
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا بتائیں ایکٹ سےکون سے بنیادی حقوق سلب ہوئے؟ عوام کی نمائندگی ان کے منتخب نمائندے کرتے ہیں، دوران سماعت جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے فل کورٹ کوئی خالی سلیٹ نہیں جس پر جو چاہے لکھ دیا ، فل کورٹ کوئی خالی سلیٹ نہیں جس پر جو چاہے لکھ دیا، پارلیمنٹ کون ہوتی ہے جو کہے 3ممبر کمیٹی بنےگی،5ممبر کیوں نہیں، یہ کام چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ججز کا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کل پارلیمنٹ بولے فیملی میٹرز پر 5رکنی بینچ سنے گا کیا ایسا ہوسکتاہے، کیا پارلیمنٹ کی جانب سے فل کورٹ کےاختیارات پر قدغن لگانے کو قبول کیاجاسکتاہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، عوام کہتی ہے کہ اس کی بہتری کے لئےیہ قانون ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کا کام قانون سازی نہیں ہے، یہ قانون 14دن کے اندر اپیل مقرر کرنے کا پابند کرتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں چیف جسٹس کو اکیلے بااختیار بنایا جائے، بتایا جائے کون سےبنیادی حقوق متاثر ہوئے ، اس قانون سے آپ کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو رہا ہے ، اس قانون کےتحت تو اپیل کا حق بھی مل گیاہے ۔
جسٹس منیب اختر نے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ یہ قانون اچھا ہے سپریم کورٹ کو بنا لینا چاہیےتھا پارلیمنٹ کو نہیں بنانا چاہیے تھا، کیا پارلیمنٹ کے پاس اختیارات ہیں کہ سپریم کورٹ فیصلےکوبھی اوور رائیٹ کردے، پارلیمنٹ کا یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین کی تشریح کو بھی اوور رائٹ کردے، آئین کو اوور رائیٹ کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی اکثریت چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل امتیاز صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ ہم یہی آپ سے دلائل دینے کیلئےکہہ رہے ہیں ، آپ نے ابھی تک آئین کی شق نہیں بتائی کہ پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تھا، آرٹیکل 176 میں چیف جسٹس کی تقرری کی بات کی گئی ہے، آپ نے قانون کو چیلنج کیا ہے اس پر دلائل دیں۔
جس پر وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں دلائل دیں اور پھر دینے بھی نہیں دےرہے، معزز جج صاحبان تحمل رکھیں اور میرے دلائل سنیں ، تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سنتے ہیں اور آپ ہماری بات پسند نہیں فرماتے، جس پر وکیل امتیازصدیقی نے مزید کہا کہ سر میں آدھے گھنٹے سے آپ کی بات سن رہا ہوں، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی پاور کو ریگولیٹ کیا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ نے نظرثانی کا حق دیا کمیٹی بنا دی ، اس میں بنیادی حقوق کیسے متاثر ہیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے وکیل سے استفسار کہ سپریم کورٹ کے اختیار کو نہیں چھیڑا ،بات صرف چیف جسٹس کی ہے، صرف چیف جسٹس کے اختیارات کم ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں ان ججمنٹس کے تابع نہیں ہوں ، جو چیز آئین میں لکھی ہے اس پر عمل کروں گا، سپریم کورٹ میں 57ہزار کیسز التوا کا شکار ہے، پارلیمنٹ بہتری لانا چا رہی ہے تواسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگریہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے مکالمے میں کہا کہ آپ کتنا وقت لیں گے ،وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر سوالات نہ ہوں تو دلائل 15 منٹ میں مکمل کرلوں گا، جس پر جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کیا آپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو ، آپ مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس 2سینئرججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے، پہلے بھی کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں، خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے پرچیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا اور کہا آپ پھر جواب دینے لگ گئے میں نے کہا ابھی صرف نوٹ کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں ، جسٹس منیب اختر نے بھی استفسار کیا خواجہ صاحب کیا اس طرح کےاختیارات پرسادہ قانون کےبجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چائیے؟
جسٹس منصور شاہ نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب ایک سادہ سا سوال میرا بھی ہے، یہیں پریکٹس اینڈ پروسیجر بنالیں تو ٹھیک ہے، آپ یہ کہہ رہے کہ یہی کام پارلیمنٹ کرے تو وہ غلط ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ساتھیوں سے بھی درخواست کروں گا بشمول میرےہم سب آپ کیلئےمشکل بنا رہے ہیں ، آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہوں ، آپ اپنے موکل کے لیے اپیل کا حق چاہتےہیں یانہیں؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے ’’ آئی، می اینڈ مائےسیلف‘‘اس کویہاں استعمال نہ کریں، ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ نے ایڈوائزری دائرہ اختیار استعمال کیا تھا، پاکستان کو چھ اشاریہ پانچ ارب کا نقصان ہوا۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ نئے قانون کے تحت 14 دن میں کیس مقرر کرنے کا کہا گیا، اگر میں پرانے قانون کے مطابق چلوں اور کیس فِکس ہی کروں تو کوئی کیا کر لے گا، اگر آپ چیف جسٹس کو یہ تمام اختیارات دینا بھی چاہیں تو میں نا لوں۔
جسٹس عائشہ ملک کا سوال
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ ایکٹ رہتا ہے تو اس کیس کے خلاف اپیل کون سا بنچ سنے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اپیل کے بینچ کا فیصلہ کر سکتی ہے، 3رکنی کمیٹی کہتی ہے کہ 5رکنی بینچ اس ایکٹ کیخلاف اپیل سنے توسن سکتی ہے، تو جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ پھر تو اپیل کا بینچ چھوٹا ہو گا، کیا فل کورٹ کے فیصلے کا اطلاق 5 رکنی بنچ پر نہیں ہو گا؟
جسٹس منصور شاہ نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ بتائیں بنیادی انسانی حقوق کیسے متاثر ہوئے تو وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ خلاف آئین قانون سازی سےبنیادی انسانی حقوق ہی متاثرہوتے ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتا دیں پھر کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے، زیر التوامقدمات کی تعداد 57 ہزار تک پہنچ چکی،ہمارا وقت بہت قیمتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ امتیاز صدیقی صاحب میں آپ کے ابھی تک خوبصورت دلائل نہیں سن پا رہا ، سوالات کوٹ کریں اور جوابات دیں،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ کی بیرونی ہی نہیں اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔
جسٹس منصور شاہ کا کہنا تھا کہ باہر کی دنیا میں بینچ چیف جسٹس نہیں بناتا، نیپال جیسے ملک میں بھی کلینڈرشروع ہونے سے پہلے فل کورٹ بیٹھتی ہے، بیلٹ کے ذریعے وہاں بنیچوں کی تشکیل کا معاملہ طے پاتا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز صاحب مجھے لگتا ہے آپ اپنی درخواست پر دلائل دینا ہی نہیں چاہتے ، امتیاز صاحب آپ جج نہیں آپ دلائل دیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کررہا، کیا پارلیمنٹ قانون سازی کااختیار استعمال کر کے عدلیہ کے کام میں مداخلت کر سکتی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی سوال کیا کیا قانون سازی کیلئے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟
چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ امتیازصدیقی صاحب اٹارنی جنرل صاحب کو جانا ہے پہلے انھیں سن لیتے ہیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کتنا وقت درکار ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق کی جانب سے جواب جمع کرادیاہے، دلائل کیلئے30منٹ چاہئیں۔
پروسیجراینڈ پریکٹس ایکٹ کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا ، جس کے بعد اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔