تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

کرونا وائرس کن طبی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟

گزشتہ ایک برس میں کی جانے والی بے شمار تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کرونا وائرس انسانی جسم پر دیرپا نقصانات مرتب کرتا ہے جو طبی پیچیدگیوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔

حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق میں امریکا کے 70 ہزار سے زائد کووڈ 19 کیسز کے ذریعے ان پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

طبی جریدے کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل میں شائع تحقیق میں کووڈ 19 کی تمام ممکنہ پیچیدگیوں کا تعین کیا گیا۔ محققین کا مقصد وبا کے دوران رپورٹ کی جانے والی پیچیدگیوں کی تصدیق کرنا تھا، یعنی طبی مسائل کا خطرہ کووڈ کے مریضوں کو سب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں کووڈ 19 سے جڑے تمام تر خطرات کا تخمینہ فراہم کیا گیا ہے، جس سے ہم طبی ماہرین، مریضوں اور پالیسی سازوں کو تمام تر پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔

اس تحقیق میں بفالو یونیورسٹی کے جیکبس اسکول آف میڈیسین اینڈ بائیولوجیکل سائنسز، ٹورنٹو یونیورسٹی اور ہیلتھ وریٹی انکارپورشن کے محققین نے مل کر کام کیا۔ تحقیق کے لیے یکم مارچ سے 30 اپریل 2020 تک کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 70 ہزار 288 مریضوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔

محققین نے ان افراد کے ڈیٹا کو 3 حصوں میں تقسیم کیا، ایک گروپ ایسے مریضوں کا تھا جن کا علاج تو ہوا مگر اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔ دوسرا گروپ اسپتال میں زیر علاج رہنے والے افراد کا تھا جبکہ تیسرا ایسے مریضوں کا تھا جن کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

70 ہزار 288 میں سے 53.4 فیصد وہ لوگ تھے جو اسپتال میں زیرعلاج رہے، جن میں آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد 4.7 تھی، باقی 46.6 فیصد پہلے گروپ میں شامل افراد تھے، مجموعی طور پر 55.8 فیصد خواتین تھیں اور اوسط عمر 65 سال تھی۔

محققین نے بیس لائن پیریڈ (کووڈ کی تشخیص سے 30 سے 120 دن قبل) اور ہزارڈ پیرڈ (تشخیص سے 7 دن قبل سے 30 دن بعد تک) کو تشکیل دیا۔ بیس لائن پیریڈ کو یہ شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ مریض کووڈ 19 سے پہلے کسی دائمی بیماری کا شکار تو نہیں تھے۔

ان دونوں پیریڈز کا موازنہ کرنے سے دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بعد مریض کو کن پیچیدگیوں کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ محققین نے تمام تر پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد کووڈ 19 یا اس کے علاج سے لاحق ہونے والی پیچیدگیوں کے امکانات اور مجموعی خطرات کا تعین کیا۔

تجزیے میں ماضی کی طبی تحقیقی رپورٹس میں بتائی جانے والی متعدد پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کو سب سے عام قرار دیا گیا۔

تحقیق کے مطابق درج ذیل پیچیدگیاں کووڈ 19 سے ٹھوس انداز سے منسلک ہوسکتی ہیں۔

نظام تنفس کے مسائل، جیسے نمونیا، اکیوٹ ریسیپریٹری ڈس ٹریس سینڈروم (اے آر ڈی ایس)، اکیوٹ لوئر ریسیپریٹری انفیکشن، ریسیپریٹری فیلیئر، پھیپھڑوں کے پردے میں ہوا کا بھرجانا۔

گردشی نظام کے مسائل، کارڈیک اریسٹ، اکیوٹ مائیو کار ڈائی ٹس (دل کے پٹھوں کا ورم)

ہیماٹولوجک ڈس آرڈرز

گردوں کے مسائل، اکیوٹ کڈنی فیلیئر

سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل

جو مسائل کووڈ 19 کے مریضوں میں سب سے عام ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

نمونیا، یہ مجموعی طور پر 27.6 فیصد مریضوں میں دیکھا گیا اور آئی سی یو میں داخل افراد میں اس کی شرح 81 فیصد تھی۔

ریسیپریٹری فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 22.6 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آیا اور آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد کو اس کا سامنا ہوا۔

اکیوٹ کڈنی فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 11.8 فیصد کیسز جبکہ آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد میں نظر آنے والی پیچیدگی ہے۔

سب سے زیادہ عام پیچیدگیوں میں وائرل نمونیا، ریسیپریٹری فیلیئر، عفونت، گردوں کے مسائل اور اے آر ڈی ایس شامل ہیں۔

حیران کن طور پر اس تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ کووڈ 19 سے فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے، جس کا عندیہ ماضی کی تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا تھا۔

Comments

- Advertisement -