تازہ ترین

کرونا وائرس سے بھارت میں بے تحاشہ اموات، قبرستانوں میں جگہ ختم

نئی دہلی: بھارت میں کرونا کی تغیر شدہ قسم کی ہولناکیاں جاری ہیں، جس کی وجہ سے اموات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اموات میں اچانک اضافے کا حکومت کو اندازہ نہیں تھا، گزشتہ دو روز سے پیش آنے والی صورت حال کے بعد حکام اور شہری پریشان ہیں۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں آج بیس جنوری کو غروبِ آفتاب تک کرونا سے مرنے والے بیس مریضوں کی تدفین کی گئی۔

دہلی میں گورکنوں کے سربراہ شمیم نے بتایا کہ ’کرونا کی وجہ سے اموات اس قدر ہوگئیں کہ اب گورکن کے کام میں چار گنا اضافہ ہوا ہے، اس سے قبل جنوری اور دسمبر میں بھی اموات ہوئیں مگر اُن کی تعداد اس قدر نہیں تھی‘۔

شمیم نے بتایا کہ ’دسمبر اور جنوری میں زمین کھودنے کے لیے مشین کی خدمات حاصل کی گئیں تھیں، اب ہم ایک کی جگہ دو یا تین مشینیں استعمال کررہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر مرنے والوں کی تعداد اتنی ہی رہی تو آئندہ تین سے چار روز میں قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی‘۔

محمد شمیم کے بقول ’دو دن پہلے کوئی آیا اور کہا کہ ان کی والدہ کی آخری رسومات کے لیے انتظامات شروع کر دیں کیونکہ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ میں نے کبھی ایسا سوچا نہیں تھا، میں وہ دیکھوں گا کہ مجھے کوئی زندہ شخص کی آخری رسومات کی تیاری کی درخواست کرے گا۔‘

محمد شمیم نے بتایا کہ ’اب صورت حال یہ ہے کہ ہر تھوڑی دیر بعد ایمبولینس کرونا مریض کا جسد خاکی لے کر قبرستان پہنچتی ہے‘۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرونا کی وبا سے تقریباً تیس لاکھ 80 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور رواں ماہ 15 ہزار ہلاکتیں ہوئیں، مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ حکومت نے ہلاکتوں کی اصل تعداد جاری نہیں کی کیونکہ ہر دوسرے گھر میں کرونا کی وجہ سے انتقال ہوا ہے۔

دہلی کے باہرغازی آباد میں ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا ہے کہ کفن میں لپٹی لاشیں فٹ پاتھ پر پڑی ہیں، غم سے نڈھال رشتے دار آخری رسومات کے لیے ان کی باری کا انتطار کر رہے ہیں۔ مغربی ریاست گجرات کے سورت، راجکوٹ، جام نگر اور احمد آباد کے شمشان گھاٹوں میں کئی گنا زیادہ لاشیں آ رہی ہیں اور تقریباً 24 گھنٹے آخری رسومات کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔

لکھنو کے دو شمشان گھاٹوں میں رشتہ داروں کو آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ٹوکن دیا جاتا ہے جس کے لیے ان کو 12 گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ لکڑیوں کی قلت کی وجہ سے لواحقین کو اپنی لکڑیاں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

Comments

- Advertisement -