داؤد رہبر فنونِ لطیفہ کے شیدائی اور ادب کے دلدادہ شروع ہی سے تھے کیوں کہ ان کے گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا۔ بعد میں رہبر نے بھی قلم تھاما تو خود کو بطور شاعر، نثر نگار، نقّاد اور ماہرِ موسیقی بھی منوایا۔ ایک اسکالر اور بہترین معلّم کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ داؤد رہبر نے کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہلکے پھلکے انداز میں گہری باتیں کرنا جانتے تھے اور ان کے ہاں موضوعات کی کمی نہیں ہے۔
اردو، فارسی اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعہ نے انھیں ایک محقق اور نقّاد کے ساتھ مترجم کے طور پر متعارف کروایا۔ ان کی علمی زندگی کا آغاز پاکستان میں ہوا، لیکن وہ امریکہ منتقل ہو گئے تھے جہاں اردو ادب، تقابلی ادب اور اسلامی فکر کے حوالے سے علمی خدمات انجام دینے کے لیے شہرت پائی۔ داؤد رہبر کا سب سے اہم وصف ان کی فکری وسعت، متنوع موضوعات اور تحقیق کام میں نکتہ بینی تھی، جس کا ثبوت ان کی تصانیف ہیں جو سنجیدہ مباحث پر مبنی ہیں۔ ان کی تحریروں میں فلسفیانہ تفکر، جمالیاتی شعور اور لسانی مہارت جھلکتی ہے۔ انھیں ایک ایسا تجزیہ نگار بھی کہا جاتا ہے جس نے اردو شاعری کے کلاسیکی اور جدید رجحانات کا مطالعہ اسلامی تہذیب و تمدن کے فکری مسائل پر خوب کام کیا اور اردو زبان و ادب کے ارتقائی مراحل پر قلم اٹھایا۔ انھوں نے نئے تحقیقی زاویے متعارف کروائے جن سے بعد میں بھی اردو کا دامن کئی تحریروں سے مالا مال ہوا۔
فن و ادب کی اس باکمال شخصیت نے اپنی زندگی کا کم و بیش سارا شعوری حصّہ علم و ادب کی تحصیل، جمع و تدوین، تشریح اور تخلیق میں گزارا۔ ان کی شاعری پر تو بہت کم بات ہوئی ہے، مگر ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور نثر پر مبنی کتب کو اردو ادب میں بڑی پذیرائی ملی۔ ڈاکٹر داؤد رہبر 5 اکتوبر 2013 کو امریکا میں انتقال کرگئے تھے جہاں وہ کئی برس سے مقیم تھے۔ آج داؤد رہبر کی برسی ہے۔
داؤد رہبر 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ جامعہ کیمبرج سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اورینٹل کالج لاہور اور بعد ازاں کینیڈا، انقرہ اور امریکا کی جامعات سے تعلیم مکمل کی اور درس و تدریس کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ ایک لائق باپ کے لائق بیٹے تھے۔ ان کے والد پروفیسر محمد اقبال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے سربراہ تھے، فرانسیسی اور دوسری مغربی زبانوں پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ ان کی خصوصی توجہ اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث داؤد رہبر جلد ہی علم و فضل کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچنے کی تمنا کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر نے اپنے ملک اور کلچر سے دور رہنے کے باوجود اردو سے اپنا ناتا نہیں توڑا تھا۔
اکرام چغتائی نے اپنے تذکرے میں ان کے بارے میں لکھا، ’’داؤد رہبر کثیر تصانیف مصنف ہیں اور ان کے موضوعات میں حیران کن تنوع پایا جاتا ہے، ان کی کتب اور مقالات کی جامع فہرست پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوعمری ہی میں ان کے مقالات برصغیر کے معتبر علمی جرائد میں چھپنا شروع ہو گئے تھے۔ داؤد نے لاہور سے عربی میں ایم اے کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ پھر انقرہ یونیورسٹی میں تقرری ہوئی، بقیہ زندگی کینیڈا اور امریکا کی یونیورسٹیوں میں تدریسی فرائض انجام دیے، کتابیں لکھیں اور مقالات تحریر کیے۔‘‘
پراگندہ طبع لوگ ڈاکٹر رہبر کی یادگار تصنیف ہے جس میں ان کے تجربات و مشاہدات اور زندگی کے کئی واقعات بڑے سادہ اور دل چسپ انداز میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ وہ اس میں اپنی ’’مہاجرت‘‘ کا دکھ بھی سناتے ہیں۔ یہ اقتباس اسی کرب سے متعلق ہے جو امریکا میں رہتے ہوئے وہ محسوس کرتے تھے۔
” امریکا میں جس چیز کو میں ترسا ہوا ہوں، وہ ہے گرمیِ قلب۔ سچی بات کیوں نہ کہہ دوں، یورپ کی اقوام نے (جن میں اہلِ امریکا شامل ہیں) صاحب دماغی تو ایسی دکھائی ہے کہ قدرت بھی انگشت بدنداں ہے، لیکن صاحب دلی ان اقوام میں کم یاب ہے، مجھے انگلستان اور امریکا میں مسلسل یہ محسوس ہوا کہ میرے مغربی ہم نشینوں کے دلوں کی بیٹریاں کمزور ہیں اور اہلِ مشرق کے دلوں سے تار جوڑ کر یہ اپنی بیٹریاں چارج کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔”
"انصافاً یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ اہلِ مشرق کی روحانی بیٹریوں کی طاقت بھی اب جواب دینے کو ہے، تاہم ہمارے ہاں دل اب بھی گرم ہیں، سرد نہیں ہوئے۔ ہمارا معاشرہ اب بھی ٹھٹھے اور معانقے والا معاشرہ ہے۔”
"میرا تو اب یہ حال ہے کہ ہر ہم جنس کو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ معانقہ آمادہ آدمی ہے یا دھکا آمادہ؟ جو نگاہ مجھ سے کہے دفع ہو جا، میں اس کی طرف اپنی نگاہ دوسری بار کیوں اُٹھاؤں، انگریز دو سو سال ہندوستان پر قابض رہا، میرا گمان غلط نہیں کہ دو سو سال میں ہمارے دیس کے لوگوں اور انگریزوں کے درمیان دو سو معانقے بھی نہ ہوئے ہوں گے۔”
ڈاکٹر رہبر کی تصانیف میں تسلیمات(مضامین)، باتیں کچھ سُریلی سی اور نسخہ ہائے وفا (موسیقی پر مضامین)، پراگندہ طبع لوگ (عام آدمی کی کہانیاں)، مشاعرے کا فاتح- نواب میرزا داغ دہلوی، کلچر کے روحانی عناصر اور شعری کلیات شامل ہیں۔
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


