تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کو ایک یگانہ روزگار، ہمہ جہت اور عالم فاضل شخصیت مانا جاتا ہے جنھوں‌ نے زبان و ادب کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد(بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جدید لسانیات کے ماہر، املا انشا، الفاظ کے مآخذ، تحقیق اور تاریخ کے عالم تھے اور متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔

ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔ ہندوستان کی جیّد اور عالم فاضل شخصیات مختلف علمی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے ان سے رجوع کرتی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی کا حصّہ رہے۔ ان کے مضامین اردو جرائد میں شائع ہوتے تھے، لیکن ان بہت کم کام کتابی شکل میں‌ منظرِ‌عام پر آسکا۔ کیوں کہ انھوں نے بہت کم لکھا اور زیادہ تر تحقیق اور مطالعے میں‌ وقت گزارا۔

ان کی ایک قابلِ قدر تحقیقی کاوش ان کی وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابت رشیدی’ کی صورت میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس ان عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے داخل ہوئے۔ ان کی دو لغات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست دکن میں‌ ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور وہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں کو سیکھا، 1917ء میں انھیں عربی گرائمر پر تحقیق کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

وہ 1919ء میں ہندوستان واپس لوٹے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ بعد ازاں حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مدرس مقرر ہوگئے، اسی عرصے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کا سربراہ بنادیا گیا۔

Comments

- Advertisement -