تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

Comments

- Advertisement -