تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے مصنّف، ممتاز اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی برسی

بیسویں صدی کی متأثر کُن شخصیت اور اسلامی اسکالر علّامہ محمد اسد کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 1992ء میں‌ آج ہی کے دن خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔

علّامہ محمد اسد اسلامی دنیا کے گوہرِ تاب دار اور نادرِ روزگار شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ عظیم مفکّر، مصلح، مفسّر، محقّق، مؤرخ اور ماہرِ لسانیات تھے جنھوں نے سفارت کاری کے میدان میں‌ بھی اپنی قابلیت اور سوجھ بوجھ کی بدولت مقام بنایا۔ ’’دی روڈ ٹو مکّہ‘‘ جیسی شہرۂ آفاق تصنیف نے انھیں دنیا بھر میں ممتاز کیا۔ یہ کتاب 1950ء کی دہائی میں منظرِ عام پر آئی تھی۔ انھوں نے متعدد کتابچے اور کتب تحریر کیں جو ان کی فکری کاوش اور علمی استعداد کا نتیجہ ہیں۔

محمد اسد ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ سنہ 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں آنکھ کھولنے والے علّامہ اسد کا نام لیو پولڈویز رکھا گیا، جنھوں نے سنِ‌ شعور کو پہنچ کر اپنے لیے دینِ اسلام کو پسند کیا اور اللہ نے کامل ہدایت سے سرفراز کیا تو انھوں نے قبولِ اسلام کا اعلان کردیا۔

وہ نوعمری میں تورات اور اس کی تفسیر پڑھتے تھے، انھوں نے یہودیت سے متعلق دیگر کُتب کا بھی مطالعہ کیا۔ عبرانی پڑھنے اور بولنے پر انھیں عبور حاصل تھا۔ 1918ء میں یونیورسٹی آف ویانا میں داخلہ لیا، لیکن 1920ء میں عملی صحافت کی طرف آگئے۔ اس کے لیے برلن، جرمنی کا رُخ کیا اور ایک خبر رساں ادارے سے جڑ گئے۔ وہ اخبار کے لیے مختلف مضامین اور تحریریں سپردِ قلم کرتے رہے اور اسی عرصے میں ان کی زندگی میں‌ انقلاب آگیا۔

علامہ محمد اسد 1922ء کے آغاز پر یروشلم میں مقیم اپنے ماموں کی دعوت پر مصر سے ہوتے ہوئے فلسطین پہنچے جہاں پہلی مرتبہ اسلامی طرزِ زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی غلبے سے متنفر ہوگئے اور عربوں کے حق میں آواز بلند کی۔ بعد ازاں فلسطین ہی میں جرمن اخبار کے نمائندے بن کر صہیونیت کے خلاف اور عرب قوم پرستی کے حق میں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ صحافتی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انھیں مصر سے شام، عراق، کُردستان، ایران، افغانستان اور مشرقی ایشیا تک سفر کرنا پڑا جس کے دوران انھیں اسلام اور اسلامی معاشرت کو مزید سمجھنے کا موقع ملا۔

ایک روز محمد اسد برلن اسلامک سوسائٹی پہنچے اور اسلام قبول کر لیا۔ انھوں نے ایک بیوہ جرمن خاتون ایلسا سے شادی کی تھی۔ بعد ازاں ان کی اہلیہ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور پھر انھیں حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی، جہاں چند روزہ قیام کے دوران وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

محمد اسد نے بھی چند سال سعودی عرب میں گزارے اور مدینے میں انھوں نے مذہبی اور دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ یورپ اور عرب دنیا ہی نہیں ہندوستان میں‌ بھی مشہور ہوئے اور 1932ء میں ہندوستان آئے جہاں انھیں‌ حکیمُ الامت، شاعرِ مشرق علاّمہ کی صحبت نصیب ہوئی اور محمد اسد کا شمار ان شخصیات میں‌ ہوا جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اس کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالا۔

محمد اسد نے ہندوستان کے سفر کا آغاز لیکچر ٹورسٹ کے طور پر کیا تھا۔ وہ ایک بحری جہاز کے ذریعے کراچی پہنچے تھے اور امرت سَر روانہ ہو گئے تھے۔ بعد میں‌ کشمیر اور لاہور میں مقامی مسلمانوں میں‌ گھل مل گئے۔ محمد اسد جلد ہی کشمیر سے لاہور ہی آ گئے اور یہیں شاعر و فلسفی علاّمہ محمد اقبال سے ملے، جن کے کہنے پر ہندوستان میں رہتے ہوئے مستقبل کی اسلامی ریاست کی حدودِ دانش وضع کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ 1934ء میں محمد اسد نے ’’اسلام ایٹ دی کراس روڈز‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شایع کیا، جو اسلامی فکر کے حوالے سے ان کا پہلا جرأت مندانہ کام تھا۔ یہ کتابچہ مغرب کی مادّہ پرستی کے خلاف ایک ہجو کی طرح تھا، جسے اسلامی دنیا میں بے حد پزیرائی ملی۔ انہوں نے صلیبی جنگوں اور جدید سامراجیت کے درمیان ایک درمیان ایک لکیر کھینچی اور مغربی مستشرقین کو اسلامی تعلیمات کو بگاڑ کر پیش کرنے کا ذمّے دار ٹھہرایا۔ بعد ازاں، محمد اسد کے اس کتابچے کے پاکستان اور بھارت میں کئی ایڈیشنز شایع ہوئے۔ تاہم، سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریر 1946ء میں بیروت میں عربی ترجمے کے ساتھ منظرِ عام پر آئی اور اس کے متعدد نسخے شایع ہوئے۔ 1936ء میں وہ حیدر آباد، دکن کے نظام میر عثمان علی خان کی سرپرستی میں ’’ اسلامی ثقافت‘‘ کے نام سے ایک اخبار نکالنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے عالمانہ تحریروں اور متن کے تراجم کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔

1939ء کے موسمِ بہار میں وہ یورپ واپس چلے گئے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں وزارتِ خارجہ میں ذمہ داری نبھائی اور مسلم ممالک سے روابط و تعلقات مضبوط کرنے کی سعی کرتے رہے۔ محمد اسد نے 80 برس کی عمر میں “قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور تفسیر” مکمل کی تھی۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دن اسپین میں گزارے اور ملاگا کے مسلمان قبرستان میں مدفون ہیں۔

ان کی مشہور تصانیف میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ بھی شامل ہے۔

محمد اسد کی خدمات کے عوض آسٹریا حکام نے ویانا میں ایک میدان ان کے نام سے منسوب کیا ہے۔

Comments

- Advertisement -