تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

اطہر نفیس: ”وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا!”

60 کے عشرے میں فریدہ خانم کی آواز نے اپنی پہچان کا وہ سفر شروع کیا جو بعد میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت مقبول ہوئی۔ فریدہ خانم نے کلاسیکی موسیقی، بالخصوص غزل گائیکی میں الگ پہچان بنائی۔ اس گلوکارہ کی آواز میں‌ ایک غزل شاید آپ نے بھی سنی ہو، جس کا مطلع ہے:

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

اس غزل کے شاعر اطہر نفیس ہیں‌ جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شاعر اطہر نفیس 21 نومبر 1980ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

فریدہ خانم کی آواز میں‌ ان کی یہ غزل ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے کئی بار نشر ہوئی اور سننے والوں نے اسے سراہا۔ محافلِ موسیقی اور مختلف پروگراموں میں فریدہ خانم سے یہی کلام سنانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔

اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی اور یافت و روزگار کے اس سلسلے کے ساتھ مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔

اطہر نفیس نے شاعری میں اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب کے باعث پہچان بنائی اور خاص طور پر غزل میں اپنے تخلیقی وفور کے ساتھ دل کش پیرایۂ اظہار کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے اردو غزل کو خیال آفریں موضوعات کے ساتھ دھیما اور نرم لہجہ عطا کیا۔

اطہر نفیس کا مجموعۂ کلام 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔

انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اطہر نفیس کی مشہور غزل ملاحظہ کیجیے۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

Comments

- Advertisement -