تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

اعظم جاہ: مسلمانوں کے آخری خلیفہ کا داماد جو ‘نظام’ نہ بن سکا

اعظم جاہ مملکتِ آصفیہ کے آخری نظام میر عثمان علی خان کے بڑے فرزند تھے۔

حیدرآباد دکن جیسی عظیم اور نہایت خوش حال ریاست کے امیر ترین حکم راں میر عثمان علی خان نے اگرچہ اپنے اس بیٹے کو لائقِ تخت و امورِ ریاست نہ جانا، مگر وہ ایک ایسے مشہور اور باثروت شاہی خاندان کے فرد تھے جسے عالمِ اسلام میں بھی حکم راں کی فیاضی و سخاوت اور بے دریغ مالی عطیات اور بالخصوص حرم شریف کے حوالے سے خدمات کے سبب امتیاز حاصل ہے۔ اس کے بعد اگر اعظم جاہ کا کچھ چرچا ہوا تو اس کا واحد اور اکلوتا سبب ترک شہزادی درّ شہوار سے نکاح اور شادی انجام پانا ہے۔

اعظم جاہ کا نام میر حمایت علی خان تھا جنھوں نے 7 اکتوبر 1970ء کو وفات پائی۔ وہ عثمانی خلافت میں مسلمانوں کے آخری خلیفہ عبد المجید ثانی کی بیٹی خدیجہ خیریہ عائشہ در شہوار کے شوہر تھے۔

اُس زمانے میں ترکی کی خلافتِ عثمانیہ اور حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت دونوں دنیا میں مسلمانوں کے دو اہم ترین سیاسی اقتدار اور شان و شوکت کے مراکز سمجھے جاتے تھے۔

خلیفہ عبدالمجید کی اکلوتی بیٹی جدید تعلیم یافتہ اور مہذّب خاتون تھیں جن کا نظام حیدرآباد کے فرزند سے رشتہ طے کرانے میں مشہور مجاہدِ آزادی مولانا شوکت علی کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔

1922ء سے 1924ء تک دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلیفہ رہنے والے عبدالمجید ثانی کی اکلوتی صاحبزادی کا نام خدیجہ خیریہ عائشہ درّ شہوار تھا۔

نظام دکن کے بیٹے اعظم جاہ کی پیدائش 1907ء کی تھی جب کہ ترک شہزادی 1914ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے شہر استنبول میں پیدا ہوئی تھیں۔ نواب میر حمایت علی خان اعظم جاہ بہادر نے درّ شہوار سے فرانس کے شہر نیس میں 12 نومبر 1931ء کو نکاح کیا تھا۔ تاہم یہ شادی برقرار نہیں‌ اور ترک شہزادی علیحدگی اختیار کرلی۔

ادھر اعظم جاہ کو یہ ملال رہا کہ ان کے والد تو 25 برس کی عمر میں تخت نشین ہو چکے تھے، لیکن وہ پچاس برس کی عمر میں بھی نظام دکن نہیں‌ بن سکے۔ مشہور ہے کہ ان کے مصاحبین انھیں پیروں فقیروں اور عاملوں کے ذریعہ تخت نشین ہونے کا مشورہ دیتے تھے۔

1964ء میں میر عثمان علی خان علیل ہوئے تو اس کی اطلاع پاکر اعظم جاہ نے بھارتی سرکار کو مکتوب روانہ کردیا کہ وہ انھیں نظام کا جانشین قرار دے کر آصف جاہ ثامن تسلیم کر لیں۔ یہ بات آصفِ سابع کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے فوراً اپنے پوتے میر برکت علی خان مکرم جاہ کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان کردیا اور حکومتِ ہند کو اس سے باخبر کردیا۔

میر عثمان علی خان کے اس فیصلے کے بعد اعظم جاہ اور نظامِ دکن میں تعلقات کشیدہ ہو گئے اور دوریاں اتنی بڑھیں کہ نظام کے انتقال تک ان دونوں میں کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ میر عثمان علی خان کی رحلت پر وہ کنگ کوٹھی آئے، باپ کے چہرے پر نظر ڈالی، پیر چھوئے اور واپس لوٹ گئے۔

Comments

- Advertisement -