تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

گوریلا جنگجو چی گویرا کی کہانی جو مزاحمت اور انقلاب کا استعارہ بنا

چی گویرا نے اپنی موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔‘

امریکا کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو چی گویرا کو 9 اکتوبر 1967ء میں اس کی زندگی سے محروم کرکے منوں مٹّی تلے دبا دیا گیا تھا۔ 1997ء میں معلوم ہوا کہ اسے بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں خفیہ طور پر سپردِ خاک کیا گیا تھا، اور تب اس کی باقیات کو وہاں سے نکال کر کیوبا پہنچایا گیا۔

ارجنٹینا میں پیدا ہونے والا چے گویرا وہ انقلابی تھا جس نے فیڈل کاسترو کے ساتھ 1959ء کے انقلابِ کیوبا کی قیادت کی تھی۔ وہ بائیں بازو کے حامیوں کا ہیرو تھا جس کی زندگی، جدوجہد اور تصاویر انقلابیوں کے لیے عزم و ہمّت اور سامراج سے نفرت کی علامت بن گئی تھیں۔

مارکسی فکر سے متاثر چی گویرا اس نتیجے پر پہنچا کہ محنت کش طبقے اور محکوم لوگوں کی آزادی کا واحد راستہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی نکالا جاسکتا ہے۔ اس نے ایک خواب ہی نہیں‌ دیکھا بلکہ اس کی تعبیر پانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔

چے گویرا کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہو گا کہ اس نے پیدائش کے بعد ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا کا نام پایا۔ وہ 14 جون 1928ء کو ارجنٹینا کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس نے طب کی تعلیم حاصل کی اور اس عرصے میں جنوبی اور وسطی امریکا میں اسے بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران چے گویرا نے ہر طرف غربت اور ظلم و جبر دیکھا اور بعد میں مارکسزم میں دل چسپی لیتے ہوئے اس پر کُھلا کہ جنوبی اور وسطی امریکا کے مسائل کا واحد حل مسلح جدوجہد کرنا ہے۔

چی گویرا اپنی انقلابی جدوجہد کے ساتھ زندگی سے بھرپور ایسا شخص تھا جو رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، فوٹو گرافر، موٹر بائیک رائیڈر، ایک لکھاری بھی تھا۔ یوں تو وہ ڈاکٹر بن چکا تھا، لیکن اسے گوریلا جنگجو کے طور پر وہ لافانی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی جس کا دورانِ تعلیم اس نے خود بھی تصوّر نہیں کیا ہو گا۔

چی گویرا نے فیڈل کاسترو سے مل کر امریکا نواز کیوبائی حکومت کا تختہ الٹنے اور گوریلا جدوجہد کے ذریعے انقلاب لانے کی جدوجہد میں اس طرح حصّہ لیا جیسے وہ اس کی آبائی سرزمین ہے۔ وہ ہر اس جگہ لڑنے گیا جہاں ظلم ہو رہا تھا۔ بعد میں وہ فرانس، چین، شمالی کوریا، مصر، الجزائر سمیت سات نو آزاد افریقی ممالک کے دورے پر گیا اور وہاں کی قیادت کو اپنا فلسفہ سمجھاتا رہا۔ 1965ء میں وہ کیوبا لوٹا اور دوہفتے بعد اچانک منظرِ عام سے غائب ہوگیا۔اور اس کے بعد چی گویرا کی موت کی خبر آئی۔

ارجنٹائن کے شہری چی گویرا کی انقلابی خدمات کے طور پر انقلاب کے بعد اسے کیوبا کی شہریت دی گئی۔ انقلابی عدالت کا سربراہ بنایا گیا جس نے سیکڑوں انقلاب دشمنوں کو سزائے موت دی اور پھر اسے اہم عہدے اور وزارت کا قلم دان سونپا گیا۔ لیکن اختلافات کے بعد وہ کیوبا کی شہریت واپس کرکے کانگو میں انقلابی جدوجہد کے لیے روانہ ہو گیا، تاہم وہاں کے باغیوں سے مایوس ہوکر چند ماہ بعد ہی موزمبیق چلا گیا جہاں پرتگیزی نوآبادیاتی حکومت سے نبرد آزما تحریک کو اپنی خدمات پیش کیں۔ لیکن وہ بھی اسے نہ سمجھ سکے۔ اسی دوران سی آئی اے کو کانگو میں چی گویرا کی موجودگی کا پتہ چل گیا اور وہ بعد میں اس کے بولیویا پہنچنے تک نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھ رہی تھی۔ بولیویا میں وہ زندگی اور موت کی آنکھ مچولی جاری رکھے ہوئے تھا کہ مخبری ہوگئی اور اسے پکڑ لیا گیا۔

چی گویرا کی جدوجہد اور اس کی موت دونوں کا اس قدر شہرہ ہوا اور وہ ایسا مقبول ہوا کہ اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ 1968ء میں طلبا کی عالمی تحریک کے دوران چی گویرا کی آٹھ برس پرانی ایک تصویر لاکھوں ٹی شرٹس اور پوسٹروں پر چھپ گئی۔ بعد میں یہ مختلف تنظیموں کے پرچموں، انقلابی اور عوامی مہمّات میں استعمال ہوئی اور یہ لاطینی امریکا کے مختلف ممالک سے لے کر دنیا بھر میں ٹی شرٹس اور کافی کے مگ پر بھی دیکھی گئی۔

چی گویرا کی باقیات کو کیوبا میں سانتا کلارا میں ایک مقبرہ تعمیر کرکے پورے قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں چی گویرا کی قیادت میں کیوبا کے انقلاب کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہوئی تھی۔

Comments

- Advertisement -