تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین کی برسی

16 جون 1987ء کو پاکستان کے معروف لوک گلوکار سائیں اختر حسین وفات پاگئے تھے۔ وہ کافیاں اور لوک گیت گانے کے علاوہ فلموں‌ کے معاون گلوکار کی حیثیت سے مشہور تھے۔

سائیں اختر حسین کو مزارات اور خانقاہوں پر عرس اور دیگر روحانی محافل میں‌ عارفانہ کلام اور کافیاں گانے کے لیے بلایا جاتا تھا جب کہ انھوں نے متعدد پاکستانی فلموں‌ میں دھمال اور قوالیوں کے مناظر کے دوران بھی پرفارم کیا۔ وہ اپنے الاپ اور لمبی تانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔

سائیں اختر حسین 1920ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت استاد بھائی لعل محمد سے حاصل کی۔ 1962ء میں انھوں نے فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کے ایک گیت ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی …کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ کے لیے پس منظر میں الاپ دیا اور بہت شہرت پائی۔ سائیں اختر حسین نے اندرونِ ملک ہی نہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت امیر خسروؒ، حضرت مخدوم صابر ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی جیسے بزرگوں اور اولیا اللہ کے مزارات پر عرس کی بڑی تقریبات میں عارفانہ کلام پیش کیا۔

سائیں اختر نے 1956ء میں پہلی بار فلم کے لیے پسِ پردہ آواز دی تھی۔ اس کے بعد متعدد فلموں کے گیتوں‌ کے لیے جب ان کی مخصوص آواز کی ضرورت محسوس کی گئی تو سائیں اختر دھن ساز کی توقع پر پورے اترے۔ انھوں نے سولو گیت بہت کم گائے اور اس کی وجہ ان کی وہ مخصوص آواز تھی جو بہرحال فلمی گائیکی کے لیے موزوں نہیں تھی۔ ان کی آواز کو ایک کُھلے گلے اور اونچے سُروں میں گانے والے گلوکار کے طور پر فلمی دھمالوں اور قوالیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔

ان کے غیر فلمی گیتوں میں سے ایک "دل والا روگ نئیں کسے نوں سنائی دا، اپنی سوچاں وچ آپ مر جائی دا۔۔” بڑا مقبول گیت تھا۔

سائیں اختر حسین لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ وفات کے بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -