تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

یومِ وفات: کلامِ غالب کو گنجینۂ معنی کا طلسم سمجھیے

اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا غالب کی نثر بھی بہت مقبول ہے۔ ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کا اسلوب اور سادہ و دل پذیر اندازِ بیان ہے جس نے ان کو عوام سے قریب کیا۔

ایک طرف ان کے اشعار گویا ہر دل کی بات بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے خطوط اور ان سے منسوب قصّے (لطائف) بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں.
مرزا غالب کی شاعری ایسی ہے کہ ہر شخص ان کے شعر کا کوئی نہ کوئی مطلب نکال ہی لیتا ہے۔ غالب کی شاعری موضوعات کے اعتبار سے منفرد اور ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی نے ان کے کلام کو پراثر بنایا ہے۔ دنیا داری، خدا پرستی، درویشی اور اپنی دانائی کے لیے ہی نہیں شوخی اور ظرافت میں بھی غالب مشہور ہیں۔ غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کا یومِ وفات ہے۔ 15 فروری 1869ء کو غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

غالب ہر عمر اور طبقہ ہائے سماج میں یکساں مقبول ہیں اور بالخصوص نوجوان اور ادب کے نئے قاری غالب پر مباحث میں‌ دل چسپی لیتے ہیں۔ غالب نے فارسی زبان میں‌ بھی شاعری کی اور خود کو طرزِ بیدل کا مشتاق بتایا جو کہ فارسی کا عظیم شاعر گزرا ہے۔

آئیے مرزا غالب کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق الٹتے ہیں۔

خاندان اور غالب کی نجی زندگی
والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا۔

زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئے۔

پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔

شادی اور پریشانیاں
13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔

غدر اور مرزا کی پنشن
غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

آخری آرام گاہ
غالب کو دنیا سے گئے زمانہ بیت گیا، مگر ان کا اعجازِ سخن ہی ہے کہ ان کی شخصیت پر آج بھی بات کی جاتی ہے، لکھا جاتا ہے اور کلامِ‌ غالب کو نئے انداز سے دیکھنے کی کوشش اور ان کے اشعار کی تشریح کی جاتی ہے۔ غالب کا مقبرہ دہلی میں‌ آج بھی ان کے مداحوں کی نظر میں رہتا ہے۔

Comments

- Advertisement -