تازہ ترین

پاکستان کے باکمال مصوّر اور استاد حاجی محمد شریف کا تذکرہ

حاجی محمد شریف پاکستان کے نام وَر مصوّر تھے جنھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ایک استاد کی حیثیت سے انھوں نے پاکستان میں فنِ‌ مصوّری کی تعلیم اور آرٹ کے فروغ کے لیے بھی خدمات انجام دیں اور اپنا تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

9 دسمبر 1978ء کو حاجی محمد شریف لاہور میں انتقال کرگئے۔ وہ 1889ء میں ریاست پٹیالہ کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا اور والد دونوں ہی فنِ مصوّری میں‌ کمال رکھتے تھے اور پٹیالہ کے دربار سے منسلک فن کار تھے۔ یوں‌ محمد شریف کو شروع ہی سے رنگوں سے کھیلنے اور اس فن کو سمجھنے کا موقع ملا اور بڑے ہوئے تو باقاعدہ مصوّری سیکھی۔

حاجی محمد شریف کو ان کے والد بشارت اللہ خان کے ایک شاگرد لالہ شاؤ رام اور استاد محمد حسین خان نے مصوّری سکھائی۔ 1906ء میں وہ بھی مہاراجہ پٹیالہ کے دربار سے وابستہ ہوگئے۔

1924ء میں لندن میں‌ منی ایچر پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئی جس میں‌ حاجی محمد شریف کے فن پارے بھی شائقین و ناقدین کی نظر میں آئے اور ان کے کام کو بہت پزیرائی ملی۔ وہ پاکستان کے ان مصوّروں میں سے تھے جنھیں ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا گیا۔

1945ء میں تقسیمِ ہند سے قبل محمد شریف لاہور آگئے جہاں انھوں نے میو اسکول آف آرٹ میں مصوّری کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1965ء میں وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر منسلک ہوگئے اور طویل عرصے تک طلبا کو فنِ مصوّری کی تعلیم دیتے رہے۔ انھیں استاد حاجی محمد شریف بھی کہا جاتا ہے۔

حاجی محمد شریف کے فن کا اتنا شہرہ ہوا کہ اس وقت صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے قدر دانوں‌ میں شامل ہوگئے تھے۔ انھیں وفات کے بعد لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -