تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔

Comments

- Advertisement -