تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

’تہافۃُ الفلاسفہ‘ جس نے فلاسفہ کو امام غزالی سے متنفر کردیا

عالمِ اسلام میں اپنے علم و فضل کے سبب نہایت بلند مرتبہ پانے والے مفکّر امام غزالی کو حجّۃُ الاسلام کہا جاتا ہے۔ وہ اسلامی تاریخ کا ایسا درخشاں ستارہ ہیں جنھوں‌ نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر گہرے اور نقوش چھوڑے، جو اساسی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن فلسفے اور علمِ الٰہیات کے اسی ماہر کی تصنیف ’تہافۃُ الفلاسفہ‘ کو سائنسی علوم اور فلسفے سے مسلمانوں کی بیزاری اور دوری کی وجہ بھی کہا جاتا ہے۔

دنیا اس بات پر متفق ہے کہ گیارھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں نے فلسفہ، منطق، اخلاقیات، طبّ و جراحی، سائنسی علوم اور فن و ثقافت کے شعبوں میں بھی گراں قدر کام کیا، لیکن غزالی کی مذکورہ تصنیف غیرمعمولی طور پر اسلامی دانش کی سمت پر اثر انداز ہوئی اور اس کے بعد مسلم دنیا میں علم و دانش کا راستہ محدود ہوتا چلا گیا۔

تہافۃُ الفلاسفہ یعنی فلسفیوں میں عدم مطابقت یا انتشار نامی کتاب میں امام غزالی نے فلسفے اور اس کی روشنی میں خدا اور کائنات پر مباحث گم راہ کُن قرار دیا ہے اور بالخصوص ابن سینا اور الفارابی جیسے مسلم فلاسفہ پر کڑی تنقید کی۔ وہ فلسفیوں کے استدلال کی بنیادی خامیوں کو زیرِ بحث لائے اور ان کی منطق کے پرخچے اڑا دیے۔

امام غزالی نے اپنے دور کے علمی مکاتب کے نظریات کا بغور مطالعہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے بالخصوص فلاسفہ کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی شخصیت اور افکار کے اثرات آج بھی اسلامی فکر میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان کا نام محمد اور ابو حامد کنیت جب کہ غزالی وہ خاندانی عرفیت ہے جس سے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا ہے۔ وہ خراسان کے ضلع طوس میں‌ پیدا ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1058ء لکھا ہے۔۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں‌ ہوئی اور یہیں اس دور کے رائج علوم سیکھتے ہوئے فلسفہ و منطق، فقہ اور دیگر علوم میں‌ مہارت حاصل کی۔ نیشا پور امامُ الحرمین کی شاگردی اختیار کی اور علمِ کلام و جدل میں‌ بھی ماہر ہوگئے۔ انھوں‌ نے دربار سے منسلک ہونے کے ساتھ مختلف ممالک بغداد، بیتُ المقدس کا سفر بھی کیا اور حج کے لیے مکّہ اور اسی سفر میں مصر و اسکندریہ بھی گئے۔ اس عرصے میں ان کی شہرت اور علم و فضل کے میدان میں ترقّی بھی ہوئی، تصانیف بھی سامنے آئیں اور کے خلاف سازشیں اور علما کے مختلف طبقات میں مخالفت نے بھی زور پکڑا مگر وہ اپنے علمی مشاغل اور مذہب پر دلیل و منطق کے ساتھ مباحث اور اپنی فکر کا اظہار کرنے سے پیچھے نہیں‌ ہٹے۔ وہ ایک مدرس اور معلّم کے طور پر بھی مصروف رہے اور ان کے کئی شاگردوں نے ان کی فکر کو اپنایا اور علمی کام کیا۔

امام غزالی 19 دسمبر 1111ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کی کتب کا اردو زبان میں‌ بھی ترجمہ ہوا۔ چند مشہور تصانیف کا ذکر کیا جائے تو احیاءُ العلوم، اسرارُ الانوار، مکاشفتہُ القلوب، کیمیائے سعادت کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اپنی کتاب میں‌ لکھتے ہیں، امام غزالی نے محض تحریر و تصنیف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب بھی کسی بادشاہ سے ملنے کا اتفاق ہوا، آپ نے ببانگ دہل اس کے عمل پر تنقید کی۔ شاہ سلجوقی کا بیٹا سلطان سنجر پورے خراسان کا فرماں روا تھا۔ امام صاحب نے ملاقات کر کے اس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”افسوس کہ مسلمانوں کی گردنیں مصیبت اور تکلیف سے ٹوٹی جاتی ہیں اور تیرے گھوڑوں کی گردنیں طوق ہائے زرّیں کے بار سے۔“ اس کے علاوہ اپنے زمانے کے دیگر طبقات کو بھی ان کے قول و فعل میں‌ تضاد اور فضولیات پر تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی کم زوریوں کو بیان کیا تاکہ وہ اپنی اصلاح کرسکیں۔

Comments

- Advertisement -