تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پروفیسر آرنلڈ کی مشہور کتاب پریچنگ آف اسلام کے مترجم عنایتُ اللہ دہلوی کا تذکرہ

عنایت اللہ دہلوی اردو زبان کے معروف مصنّف، ناول نگار، ڈراما نویس، مترجم اور افسانہ نگار تھے۔ انھیں اردو کا بہترین مترجم مانا جاتا ہے۔

عنایت اللہ دہلوی کا سنِ پیدائش 1869ء ہے۔ وہ دہلی کے محلہ قاضی واڑہ میں مشہور مترجم، انشا پرداز و مؤرخ مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی میں ایک اتالیق سے حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ اسکول اور عربک اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ تیسری جماعت میں تھے جب والد انھیں اپنے ساتھ الٰہ آباد لے گئے۔ اس سفر میں عنایت اللہ کو پہلی بار سر سید احمد خان سے ملاقات کا موقع میسر آیا جو ان کے والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔

الٰہ آباد میں 1880ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج علی گڑھ کے اسکول میں داخل لیا۔ یہاں سے 1885ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1887ء میں ایف اے اور 1891ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ بی اے کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور دہلی لوٹ آئے۔

علی گڑھ میں تعلیم کے دوران میں سر سید کی توجہ کا مرکز رہے اور ان کی راہ نمائی اور شفقت حاصل رہی جس نے انھیں پڑھنے اور لکھنے پر آمادہ کیے رکھا۔ 1892ء میں سرسید کی فرمائش پر ابو ریحان البیرونی کی مختصر سوانح عمری لکھ کر تصنیفی کام کا آغاز کیا اور سر سید سے داد پائی۔

1893ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے اور سرسید نے کالج کی لائبریری کا انتظام ان کے سپرد کیا۔ وہ کچھ عرصے کالج میں ریاضی کے اعزازی پروفیسر بھی رہے، اس کے بعد دہلی چلے آئے۔ 1894ء میں دوبارہ علی گڑھ آئے جہاں سر سید کے ماہنامہ تہذیبُ الاخلاق کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1897ء میں سر سید کی ایما پر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام کا دعوتِ اسلام کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا جس کے کئی باب سر سید نے سنے اور داد دی۔

1901ء سے انھوں نے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ و سیشن جج جون پور کے منصرم (یعنی چیف سپرٹینڈنٹ) مقرر ہوئے۔ اس ملازمت کے طفیل متعدد شہروں میں تبادلہ اور وہاں قیام کا موقع ملا۔

دار الترجمہ حیدرآباد(دکن) کے قیام کے بعد 20 جنوری 1921ء کو وہ سر راس مسعود اور سر اکبر حیدری کی کوششوں سے دکن آ گئے اور ناظم دارُ الترجمہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ اس عہدے پر تقریباً 14 سال تک فائز رہے۔

اردو کے اس محسن کی تصانیف و تراجم کی تعداد 57 کے قریب ہے۔ ان میں تذکرہ ابو ریحان البیرونی، خوابِ پریشاں، امپیریل رول ان انڈیا، دعوتِ اسلام، انگریزی نظائر قانون کا ترجمہ، جاپان کا تعلیمی نظم و نسق، صلاح الدین اعظم، یونانی شہنشاہیت، عرب قدیم کا تمدن، تاریخِ ادبیات عرب، چنگیز خان، امیر تیمور، عبرت نامہ اندلس، تاریخ مغل، اندلس کا تاریخی جغرافیہ، سلامبو، تائیس، نجم السحر وغیرہ شامل ہیں۔

عنایت اللہ دہلوی نے 24 اکتوبر 1943ء کو برطانوی ہند کے شہر ڈیرہ دون میں انتقال کیا۔

Comments

- Advertisement -