تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

Comments

- Advertisement -