تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

یومِ وفات: جرأت مند اور راست گو جمشید نسروانجی کو بابائے کراچی کہا جاتا ہے

جمشید نسروانجی جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا، 1952ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ پارسی برادری کے نسروانجی اپنی جرات، راست گوئی اور عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں کے لیے مشہور تھے۔

وہ ایک ایسے درد مند اور باشعور شخص تھے جنھوں نے انسانوں ہی نہیں‌ جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کیا اور اپنے خلوص اور پیار و محبت سے لوگوں کے دل جیتے اور ان کے لیے مثال بنے۔

انھوں نے 1886ء میں کراچی میں آنکھ کھولی۔ ان کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا۔ انھوں نے اپنی عوامی خدمات کا آغاز 1915ء سے کیا۔ ان کے سماجی کاموں کا سلسلہ گلی محلّے سے شروع ہوا اور پھروہ شہر بھر کے عوام کے مسائل، تکالیف اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی شخصیت بن گئے۔ انھوں نے اپنے دور میں سیاست میں بھی حصّہ لیا۔

گل حسن کلمتی اپنی کتاب "سندھ جا لافانی کردار” میں لکھتے ہیں کہ 1919ء میں جب انفلوائنزا کی بیماری نے کراچی میں وبائی شکل اختیار کی تو جمشید نسروانجی نے دن رات عوام کی خدمت کی اور بے حد مقبول ہوئے۔ انھیں 1922ء میں کراچی میونسپلٹی کا صدر منتخب کرلیا گیا۔ وہ 1932 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ سندھ کے مشہور سیاست داں جی ایم سید نے اپنی کتاب میں جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھا ہے کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔

جمشید نسروانجی سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے بعد 1937ء میں ضلع دادو سے سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے اور آزاد حیثیت میں رکن رہے، لیکن ایک موقع پر سیاسی دباؤ کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب انھوں نے محسوس کیا کہ غیر مسلم اور ایمان دار کارکنوں کے لیے ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے تو وہ سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

جمشید نسروانجی صحت عامّہ کے حوالے سے خاص طور پر متحرک رہے اور عوام میں حفظانِ صحّت کے اصولوں اور امراض سے متعلق شعور و بیداری کے لیے کام کیا۔ انھوں نے اپنی والدہ کے نام سے صدر میں ایک میٹرنیٹی ہوم بھی قائم کیا تھا۔

کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔

معروف ادیب، محقق اور تذکرہ نگار علی محمد راشدی نے اس حوالے سے ایک واقعہ اپنی کتاب میں رقم کیا جو جمشید نسروانجی کے بیدار مغز اور مثالی شخصیت ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظر میں انسان ہی نہیں جانور بھی جو ہمارے کام آتے ہیں اور بہت مددگار ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔

جمشید نسروانجی نے اپنے دور میں شہر کے لیے صاف پانی کی فراہمی کا منصوبہ بنا کر اس پرعمل درآمد کروایا، کشادہ سڑکیں تعمیر کراوائیں اور مختلف شفا خانے، راستوں اور حقوق و سہولیات کے حوالے سے متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔

آج شہرِ قائد کی جو حالت ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سڑکیں، بجلی و پانی کی فراہمی کا نظام، برساتی نالے، صفائی ستھرائی، تجاوزات غرض عوام کو سہولیات تو کیا بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں یا برائے نام ہیں۔ شہرِ قائد کو آج پھر کسی بے غرض، پُرخلوص اور درد مند کی تلاش ہے جو جمشید نسروانجی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شہر اور اس کے باسیوں کو ان کا حق دلوا سکے اور اسے صاف ستھرا اور مثالی شہر بنا سکے۔

Comments

- Advertisement -