تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

18 جون: لکشمی بائی جس نے وطن کی حرمت و ناموس پر جان قربان کردی

لکشمی بائی جنگِ آزادیٔ ہند کا وہ کردار ہے جس کی لازوال قربانی، فہم و فراست اور بہادری کی داستان خطّے کی تاریخ میں‌ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کردار آنے والی نسلوں کو اپنے وطن سے محبّت اور دھرتی کی حرمت و ناموس پر مَر مٹنے کا راستہ دکھاتا رہے گا۔

لکشمی بائی ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست جھانسی کی رانی تھی۔ 1817ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جھانسی کے راجہ کی وفات کے بعد وہاں اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی تو نوجوان بیوہ رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کی طاقت کو للکارا اور اعلانِ جنگ کر دیا۔ اس وقت ہندوستان کا ہر بسنے والا بلاتفریقِ رنگ و نسل اور مذہب انگریزوں سے نفرت اور ان کے قبضے کے خلاف مزاحمت پر آمادہ تھا۔

رانی نے فارسی اور اردو بھی پڑھی تھی، لیکن لکھنے پڑھنے کے ساتھ شمشیر زنی، نشانہ بازی اور گھڑ سواری اور دوسرے فنونِ حرب کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ وہ بہترین نشانے باز تھی۔ مشہورہ ہے کہ اس کی بندوق کا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا تھا۔

وہ ایک خوب صورت دوشیزہ تھی اور جب جھانسی کے گنگا دھر کی طرف سے شادی کا پیغام آیا تو والدین نے قبول کرلیا۔ اسے تعلیم و تربیت کے وہ تمام مواقع ملے جو راج کماروں اور راج کماریوں کے لیے مخصوص ہوتے تھے، یوں وہ جھانسی کی رانی بن گئی۔ راجہ نے اسے رانی لکشمی بائی کا خطاب دیا تھا۔

غدر کے سال بھر بعد 18 جون 1858ء کو انگریز گوالیار پر حملہ آور ہوئے تو رانی نے مختصر فوج کے ساتھ ان کے حملے کا بھرپور جواب دیا۔ مردانہ لباس میں وہ دشمن پر برق بن کر کوندی۔ لیکن ایک موقع پر جب انگریز سپاہی نے عقب سے تلوار ماری تو زندگی کا سفر تمام ہو گیا۔

مشہور ہے کہ اس نے مرتے ہوئے وصیّت لاش کو انگریزوں کے ہاتھ نہ لگنے دینے کی وصیّت کی تھی اور اسی لیے اس کے جسدِ خاکی کو اسی مقام پر نذرِ آتش کردیا گیا جہاں اس نے زندگی کی آخری سانسیں‌ لی تھیں۔

Comments

- Advertisement -