تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

ایم کلیم، ریڈیو پاکستان کا وہ انجینیئر جس نے بحیثیت گلوکار شہرت حاصل کی

ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں‌ بسنے والوں کی تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے موسیقی کے پروگرام سامعین میں‌ مقبول تھے۔ ان پروگراموں نے کئی سریلے گلوکاروں کو متعارف کرایا اور ان کی رسیلی آوازوں‌ نے سماعتوں‌ میں‌ رس گھولا۔

ریڈیو سننا ایم کلیم کا بھی مشغلہ تھا۔ انھیں موسیقی اور گلوکاری کا شوق تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کے چچا تھے جو موسیقی کے دلدادہ اور گلوکار بھی تھے۔

یہ شوق ایم کلیم کو ریڈیو تک لے گیا، لیکن وہاں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو پر بطور ٹیکنیشن ملازمت اختیار کی تھی، چند دنوں بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ ایک اچّھے گلوکار بھی ہیں۔ تاہم ایم کلیم خود اسے شوق سے بڑھ کر اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ریڈیو پاکستان سے اسی حیثیت میں وابستگی اختیار کی اور یہاں‌ بھی ان کے احباب کو موسیقی اور گلوکاری کے ان کے شوق کا علم ہو گیا۔

آج ایم کلیم کی برسی ہے۔ وہ کینیڈا میں مقیم تھے جہاں 1994ء میں زندگی کی بازی ہار گئے اور وہیں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

ان کا اصل نام حفیظ اللہ تھا۔ وہ 1924ء میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ریڈیو پر ملازمت کے دوران اکثر احباب ان سے کوئی غزل یا گیت سننے کی فرمائش کرتے تو ایم کلیم کچھ نہ کچھ سنا دیتے، لیکن انھیں‌ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ کبھی وہ ریڈیو کے لیے ایسے گیت ریکارڈ کروائیں گے جن کا چرچا سرحد پار بھی ہو گا۔

ان کی آواز مشہور گلوکار کے ایل سہگل سے مشابہ تھی۔ ریڈیو پر ان کے رفقائے کار اور وہاں‌ آنے والے فن کار انھیں‌ سنتے تو سنجیدگی سے گائیکی پر توجہ دینے کو کہتے۔ نام وَر موسیقاروں اور گائیکوں نے جب ان کی تعریف کی اور اس میدان میں‌ انھیں اپنی قسمت آزمانے کا مشورہ دیا تو ایم کلیم بھی کچھ سنجیدہ ہوگئے۔

اس ہمّت افزائی اور احباب کے مسلسل اصرار پر انھوں نے 1957ء میں اپنا پہلا نغمہ “ناکام رہے میرے گیت” ریکارڈ کروایا۔ یہ نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تو ان کی شہرت بھی ہر طرف پھیل گئی۔

ایم کلیم کی آواز میں سُروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز و گداز بھی۔ وہ ایک اچھے موسیقار بھی ثابت ہوئے اور اس فن میں بھی اپنی صلاحیتوں‌ کا مظاہرہ کیا۔ ایم کلیم کی آواز میں‌ ایک اور گیت سامعین میں‌ مقبول ہوا جس کے بول تھے: “گوری گھونگھٹ میں شرمائے۔”

اسی زمانے میں ان کی آواز میں‌ ایک غزل بہت مقبول ہوئی، جس کا مطلع ہے۔

ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے

ایم کلیم کی آواز میں کئی گیت ریکارڈ کیے گئے جن کی شہرت پاکستان ہی نہیں‌ سرحد پار بھی پہنچی اور شائقین نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔

Comments

- Advertisement -