تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

یومِ‌ وفات: منٹو نے "اخلاق باختہ” شاعر میرا جی کو پرلے درجے کا مخلص لکھا ہے

مروجّہ سماجی اقدار سے بیزاری اور انحراف نے میرا جی کو باغی شاعر بنا دیا تھا۔ اردو نظم کو موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نئی وسعتوں سے آشنا کرنے والے اس شاعر کے منفرد طرزِ فکر اور اندازِ بیان نے کئی نظم نگاروں کو متاثر کیا، لیکن ان کی ذات کثرتِ مے نوشی، رنگین مزاجی اور بعض قبیح عادات کے سبب نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ میرا جی نے 1949ء میں آج ہی کے دن ممبئی میں وفات پائی۔

صرف 38 سال جینے والے میرا جی کا اصل نام محمد ثناءُ اللہ ڈار تھا۔ 25 مئی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی شہاب الدین ریلوے میں تھے جن کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا اور یوں میرا جی نے تعلیم و تربیت کے مراحل بھی مختلف شہروں طے کیے۔

نثاءُ اللہ ڈار کے والد نے لاہور میں اقامت اختیار کی تو میرا سین نامی ایک بنگالی لڑکی اس کی زندگی میں داخل ہوئی اور اس کے عشق میں انھوں نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا، لیکن یہ عشق میں ناکام رہا اور بعد کے برسوں میں وہ عشق اور ہوس میں تمیز کیے بغیر نجانے کتنی زلفوں کے اسیر ہوئے اور رسوائیاں اپنے نام کرتے رہے۔ یہ بدنامیاں ایک طرف حلیہ بھی ان کا ایسا تھا کہ نفیس طبیعت پر ان کا ساتھ گراں گزرتا۔ خاکہ نگاروں نے لکھا کہ وہ جسمانی صفائی کا کم ہی خیال رکھتے۔ بڑھے ہوئے گندے بالوں کے علاوہ ان کے لمبے ناخن میل کچیل سے بھرے رہتے اور لباس کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ان کی ظاہری حالت، اور شخصی کم زوریوں کو ان کے بدخواہوں اور دشمنوں نے خوب موضوع بنایا ہے، لیکن اس سے میرا جی کی فنی عظمت کم نہیں‌ ہوتی۔

میرا جی کو شروع ہی سے مطالعہ کا شوق اور علم و ادب سے لگاؤ رہا۔ طبیعت کو موزوں پایا تو شاعری شروع کر دی اور علم و ادب سے شغف کے سبب وہ معروف اور قابلِ‌ ذکر رسالے ادبی دنیا سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور انھوں نے مضامین لکھنے کا آغاز کیا، ساتھ ہی غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی کرنے لگے۔ حوصلہ افزائی ہوئی تو میرا جی کی طبع زاد تخلیقات اور تنقیدی مضامین بھی رسالے میں شایع ہونے لگے اور ادیبوں اور باذوق قارئین کی توجہ حاصل کی۔

جب میرا جی نے اپنی آنکھیں کھولیں تو اس وقت ہند پر برطانیہ کا تسلط تھا اور ہندوستان آزادی کی لڑائی میں لڑ رہا تھا۔ اس دوران برّصغیر کے جملہ طبقات اور ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی اور اردو ادب پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس وقت میرا جی نے حلقہ اربابِ ذوق میں‌ دل چسپی لینا شروع کی۔

ڈاکٹر انور سدید نے میرا جی کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا، اربابِ‌ ذوق کو میرا جی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آگئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انھیں ایک مخصوص جہت میں گام زن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دل چسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پراسرار جال سا بُن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہوجاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پاتا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔

وہ مزید لکھتے ہیں، میرا جی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اور حلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اورامارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعرا پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرچکے تھے۔

1941ء میں میرا جی کو ریڈیو اسٹیشن لاہور میں ملازمت مل گئی۔ اس کے اگلے سال ان کا تبادلہ دہلی ریڈیو اسٹیشن پر ہو گیا۔ اسی عرصلے میں انھوں نے فلموں‌ میں قسمت آزمانا چاہی، لیکن ناکام رہے اور بعد میں اختر الایمان نے انھیں اپنے رسالے خیال کی ادارت سونپ دی۔

میرا جی نے اپنی نظموں میں‌ زبان و بیان کے جو تجربے کیے اور جس ذوقِ شعر کی ترویج کی کوشش کی اس نے اک ایسے شعری اسلوب کی بنیاد رکھی جس میں امکانات پنہاں تھے۔ میرا جی اردو شاعری میں ایک تاریخی اور نئی روایت قائم کرنے میں‌ کام یاب رہے۔ اردو شاعری میں‌ ان کی اہمیت ایک خاص طرزِ احساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ ان کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

نظموں اور غزلوں کے علاوہ میرا جی نے فلمی گیت نگاری بھی کی اور ان کے تنقیدی مضامین بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں‌ کے نام یہ ہیں:

”مشرق و مغرب کے نغمے“ ، ”اس نظم میں “، ”نگار خانہ“، ”خیمے کے آس پاس“ جب کہ میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ شعری مجموعے ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے میرا جی کے بارے میں لکھا تھا، بحیثیت انسان کے وہ بڑا دل چسپ تھا۔ پرلے درجے کا مخلص، جس کو اپنی اس قریب قریب نایاب صفت کا مطلقاً احساس نہیں تھا۔

میرا جی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی بڑے خلوص کے ساتھ، بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ، لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔

اردو زبان کے مشہور شاعر اور جدید نظم کے بانی میرا جی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

نگری نگری پھرا مسافر، گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا، کیا ہے میرا، اپنا پرایا بھول گیا

کیا بھولا، کیسے بھولا، کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

کیسے دن تھے، کیسی راتیں، کیسی باتیں، گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی، کیسا تھا چہرہ بھول گیا

ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

Comments

- Advertisement -