تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیلسن منڈیلا: امن اور مساوات کے عظیم پرچارک اور ہردل عزیز راہ نما

نسلی امتیاز کے خلاف طویل جدوجہد کے دوران صعوبتیں‌ اٹھانے اور فتح حاصل کرنے والے نیلسن منڈیلا دنیا کے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں۔ انھیں امید کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ جنوبی افریقا کے ہر دل عزیز سیاست دان اور عوامی راہ نما تھے۔

جنوبی افریقا کے پہلے سیاہ فام صدر نیلسن منڈیلا نے 2013ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ دنیا بھر میں امن و مساوات کے اس پرچارک کو متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا تھا، انھیں کئی اعزازی ڈگریاں دی گئیں، اور کئی ممالک میں‌ سڑکوں، چوراہوں، اور قابلِ ذکر عمارتوں کو ان کے نام سے موسوم کیا گیا۔

نیلسن منڈیلا جنوبی افریقا میں 1918ء میں تھیمبو قبیلے میں پیدا ہوئے جس کی اکثریت ایک چھوٹے سے گاؤں میں آباد ہے۔ ان کی زبان کوسا تھی۔ منڈیلا کا نام رولیہلا ہلا تھا، لیکن ان کے ایک استاد نے انھیں‌ انگریزی زبان میں‌ ’نیلسن‘ نام دے دیا اور وہ اسی سے پہچانے گئے۔

وہ نو برس کے تھے جب والد کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کے زمانے میں‌ افریقا نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بدترین ملک مشہور تھا۔ امتیازی سلوک اور ناانصافی و غیر جمہوری روایات پر مبنی قوانین نے سیاہ فاموں کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ نیلسن منڈیلا نے 1943ء میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) میں شمولیت اختیار کرلی اور بعد میں اے این سی یوتھ لیگ کے بانی اور صدر بنے۔

نیلسن منڈیلا نے وکالت پڑھی اور اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر 1952ء میں جوہانسبرگ میں دفتر لے کر پریکٹس شروع کردی۔ بعد میں انھوں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے خلاف سفید فام افراد پر مشتمل جماعت نیشنل پارٹی کے وضع کردہ نظام کے خلاف مہم شروع کی اور سیاہ فام اکثریت کے استحصال کے راستے میں مزاحم ہوئے۔

1956ء میں منڈیلا اور ان کے ساتھی کارکنوں پر غداری کا مقدمہ چلا، لیکن 4 سال بعد الزامات خارج کر دیے گئے۔ تاہم ملک میں سیاہ فام اکثریت کے لیے رہائش اور روزگار سے متعلق ایک نیا بدنیتی پر مبنی قانون بنایا گیا جس نے نیسلن منڈیلا کو ایک بار پھر میدان میں نکلنے پر مجبور کردیا۔ اے این سی کو 1960ء میں کالعدم قرار دے دیا گیا اور منڈیلا روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی برس ملک کی نسل پرست حکومت کے خلاف سیاہ فام اکثریت اس وقت سخت مشتعل ہوگئی جب پولیس نے 69 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ تمام سیاہ فام تھے۔

اس بدترین واقعے نے نیلسن منڈیلا کی پُرامن مزاحمت کو بھی جارحیت اور بغاوت کی طرف دھکیل دیا اور اے این سی کے نائب صدر کی حیثیت سے انھوں نے ملکی معیشت کے نظام کو بکھیر کر رکھ دینے کی مہم چلا دی۔ اس پر منڈیلا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انھیں پُرتشدد اور حکومت کا باغی قرار دیا گیا۔

نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقا میں نسل پرست سفید فام حکم رانوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنی جوانی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ انھیں 1964 میں معیشت کو سبوتاژ اور عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے بعد عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ وہ فروری 1990ء میں رہا ہوئے تھے۔

اس دوران سیاہ فام نوجوانوں کی اکثریت جو اپنے قائد کی آواز پر حکومت کے خلاف متحد ہوچکے تھی، نے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی اور بین الاقوامی برادری کا دباؤ بھی بڑھتا گیا اور جنوبی افریقا کی نسل پرست حکومت کو سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی کے بعد منڈیلا کی رہائی عمل میں آئی اور وہاں ایک نئی اور مخلوط النسل جمہوریت کے قیام کے لیے بات چیت کا آغاز ہوا۔

نسل پرستی اور عدم مساوات کے خلاف طویل جدوجہد پر 1993ء میں منڈیلا کو امن کا نوبل انعام دیا گیا اور اگلے ہی سال بھاری اکثریت سے وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔

اپنے حقوق کے حصول کے لیے طویل اور نہایت تھکا دینے والے لڑائی کے بعد وہ ناتوانی اور امراض‌ کا شکار ہوتے چلے گئے اور 2004ء کے بعد سے عوامی مصروفیات کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ پھیپھڑوں کے انفیکشن سے متاثر تھے۔

نیلسن منڈیلا کو ان کے وطن میں بابائے جمہوریت تسلیم کیا گیا اور مقامی لوگ انھیں احترام سے ’مادیبا‘ پکارتے ہیں۔

نیلسن منڈیلا نے جنگ زدہ علاقوں میں قیامِ امن کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور ملک میں صحّت اور دنیا بھر میں‌ مخصوص امراض کی روک تھام اور علاج کے لیے بھی ان کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔

1992ء میں‌ نیلسن منڈیلا پاکستان آئے تھے اور کراچی میں بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی تھی۔ انھوں نے اس موقع پر حکومت اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا اور اپنی تقریر کے اختتام پر اردو میں‌ ‘خدا حافظ’ کہا تھا۔

وہ ایک ایسے لیڈر تھے جنھوں نے مسلسل جدوجہد کے زمانے اور بعد میں بھی اپنے مخالفین ہی نہیں اپنے قریبی ساتھیوں کی نکتہ چینی اور کڑی تنقید کو بھی برداشت کیا۔ بلاشبہ انھوں نے ایک تلخ اور سخت زندگی گزاری، لیکن ہر موقع پر درگزر اور تحمّل کا مظاہرہ کرتے رہے۔

Comments

- Advertisement -