تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

عقل و خرد کے موتی رولنے والے پروفیسر کرّار حسین کا تذکرہ

پروفیسر کرّار حسین علم و آگاہی کا دبستان تھے۔ پاکستان میں دہائیوں تک عقل و خرد کے موتی رولنے والی اس بے مثل شخصیت سے جہانِ فکر و فن کی کئی ممتاز اور نمایاں شخصیات نے تعلیم اور راہ نمائی حاصل کی۔ پروفیسر کرّار حسین نے7 نومبر 1999ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔

1911 ء میں انھون نے راجستھان کے ضلع کوٹہ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ پرائمری تعلیم ایک انگریزی اسکول سے حاصل کی اور گھر پر قرآن پڑھا۔ کرّار حسین نے 1925ء میں میٹرک اور 1927ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ وہ ذہین طالبِ علم اور شروع ہی سے غور و فکر کے عادی رہے۔ کتب بینی کا شوق تھا اور مطالعہ نے انھیں‌ سیاست کی طرف بھی مائل کیا۔ یہی وجہ ہے تھی کہ وہ زمانہ طالبِ علمی میں طلبہ تنظیم اور سیاست میں نہایت فعال رہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصّہ لیتے تھے۔ تقریری مقابلوں، ذہنی آزمائش اور مقابلۂ مضمون نویسی میں وہ اپنا نام ضرور لکھواتے تھے۔ انگریزی، اُردو ادب، تاریخ، فلسفہ، مذہب اور معاشرتی مسائل ان کے پسندیدہ مضامین اور موضوعات تھے، جب کہ فارسی ادبیات میں ازحد دل چسپی تھی۔

آگرہ کے ’’سینٹ جونز کالج‘‘ میں داخلہ لینے کے بعد ہاسٹل میں رہے جہاں کرّار حُسین کا اکثر وقت تعلیمی مصروفیات کے ساتھ مطالعہ اور سماجی مسائل میں‌ غؤر و فکر کرتے ہوئے گزرنے لگا۔ اسی زمانے میں سیاسی محاذ پر فرنگی راج کے خلاف تحریکیں بھی زور پکڑ رہی تھیں۔ وہ ’خاکسار تحریک‘‘ سے وابستہ ہوگئے، لیکن یہ وابستگی طویل عرصے تک برقرا نہ رہ سکی۔

1932ء میں کرّار حسین نے میرٹھ کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اگلے سال اسی کالج میں انگریزی ادب کے استاد بن کر تدریسی سفر کا‌ آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ متعدد کالجوں اور جامعات سے وابستہ ہوئے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ تدریس ان کی شخصیت کا ایک لازمی حصّہ تھا۔

خاکسار تحریک سے علیحدگی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت بدلنے اور ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انگریزی اور اردو زبان کے دو پرچوں کا اجرا کیا۔ وہ اپنے سیاسی، سماجی اور فکری شعور و تجربات کی روشنی میں ان پرچوں میں‌ مضامین لکھتے رہے اور وہ وقت آیا جب سرکار نے ان پرچوں کے اجرا کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے۔ یہاں تک کہ دونوں پرچے مالی مسائل کا شکار ہوکر بند ہو گئے۔ ساتھ ہی کرّار حُسین کو ناپسندیدہ قرار دے کر داخلِ زنداں کر دیا گیا۔ رہائی پانے کے بعد وہ 1948ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔

یہاں اسلامیہ کالج کراچی میں انگریزی کے پروفیسر ہوگئے اور پھر اِسی کالج میں وائس پرنسپل کے طور پر تعینات رہے۔ 1955-67ء تک میرپور خاص، خیر پور اور کوئٹہ میں مختلف کالجوں میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد میں‌ کراچی واپس آئے اور جامعہ مِلّیہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر کے طور پر تدریس کا آغاز کیا۔ 1977ء سے 1999ء تک کراچی میں ’’اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر رہے۔

پروفیسر کرّار حُسین رکھ رکھاؤ میں شائستگی اور اپنی انکساری و سادہ دلی کے ساتھ ایک نہایت شفیق استاد کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ان کی شخصیت میں جہان و معانی کی دنیا آباد تھی۔ ان کی تصانیف میں قرآن اور زندگی اور غالب: سب اچھا کہیں جسے شامل ہیں۔ ان کی تقاریر کے کئی مجموعے بھی کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔

Comments

- Advertisement -