تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

یومِ وفات: ممتاز شاعر ثاقب لکھنوی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے

یہ دو اشعار اردو ادب کے طالب علموں اور باذوق قارئین کے حافظے میں ضرور محفوظ ہوں گے جنھیں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور اپنی تحریر یا تقریر کو پُرتاثیر بنانے کے لیے مشاہیر اور خواص سبھی نے موقع کی مناسبت سے برتا۔

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے

ان اشعار کے خالق ثاقب لکھنوی ہیں۔ آگرہ میں 1869ء میں پیدا ہونے والے ثاقب لکھنوی کے متعدد اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1949ء میں وفات پائی۔

ان کے والد نے آگرہ چھوڑ کر لکھنؤ کا رُخ کیا تھا اور اسی شہر کی نسبت ثاقبؔ کے نام سے جڑی رہی۔ ان کا اصل نام مرزا ذاکر حسین قزلباش تھا۔ ابتدائی تعلیم اس دور کے رواج کے مطابق ہوئی اور انھوں نے عربی، فارسی اور اردو کی استعداد حاصل کرنے کے بعد آگرہ کے کالج سے انگریزی میں انٹرنس پاس کیا۔ وہیں ان کی ملاقات صفیؔ لکھنوی اور ذکیؔ مرادآبادی سے ہوئی جو ادیب اور انشا پرداز تھے۔ ثاقب لکھنوی موزوں طبع اور شاعری کی طرف مائل تھے اور ان کی صحبت نے میں ان کے جوہر خوب کھلے۔

آگرہ میں تعلیم مکمل کرکے جب لکھنؤ آئے تو ان کی ملاقات راجہ محمود آباد محمد امیر حسن خاں بہادر سے ہوئی جو علم و فنون کے بڑے قدر دان تھے انھوں نے ثاقبؔ لکھنوی کو ریاست میں‌ ادب اور اس سے متعلق سرگرمیوں کے فروغ کی ذمہ داری سونپ دی اور ماہانہ وظیفہ جاری کردیا۔ لیکن خوش حالی نصیب نہ ہوئی۔ کاروبار کیا مگر اس میں بھی خسارہ ہوا۔ آخر 1906ء میں کلکتہ چلے گئے۔ وہاں سفیرِ ایران نے ان کی قابلیت سے متاثر ہو کر اپنا معتمدِ خاص مقرر کرلیا۔ اتفاق سے دو برس بعد 1908ء میں راجہ محمود آباد نے انھیں پھر دعوت دے کر بلوا لیا اور یہ واپس لکھنؤ آگئے اور وہیں عمر گزار دی۔

وہ ایک ایسے کشمکش کے دور میں پیدا ہوئے تھے جو سیاسی، تہذیبی اور سماجی اعتبار سے انقلابات دیکھ رہا تھا۔ قدیم اقدار ٹوٹ رہی تھیں اور دہلی و لکھنؤ کی ادبی رونقیں ماند پڑچکی تھیں۔ یہ سیاسی اور سماجی حالات اور زندگی کے مسائل نے ان کی شاعری میں سوز و گداز پیدا کردیا تھا۔ وہ زندگی کے رنج و غم اور تلخ حقائق کو اپنے اشعار میں باندھتے چلے گئے اور ان کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید دور کی خوب صورتی بہم ہو گئی۔

ثاقبؔ لکھنوی کے کلام کو ان کے احساس کی شدّت، تخیل کی بلندی اور زبان کی نرمی و لطافت نے نمایاں کردیا۔ زندگی کی 80 بہاریں دیکھنے والے اس شاعر نے ایک دیوان یادگار چھوڑا۔

ثاقب لکھنوی کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

Comments

- Advertisement -