تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ممتاز شاعر اور ادیب سرشار صدیقی کا تذکرہ

اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار سرشار صدیقی 7 ستمبر 2014ء کو جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ وہ ترقّی پسند تحریک اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ رہے تھے۔

ان کا اصل نام اسرار حسین محمد تھا۔ 25 دسمبر1925 ء کو کان پور میں پیدا ہوئے۔ والد ممتاز طبیب تھے اور طبیہ کالج دہلی میں استاد تھے۔ سرشار صدیقی نے میٹرک کلکتہ سے جب کہ انٹر کان پور سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950ء میں پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

یہاں بھی شعر و ادب سے جڑے رہے اور ساتھ ہی صحافت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، انھوں نے مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھے اور 1955ء میں نیشنل بینک میں ملازم ہوگئے۔ اسی ملازمت سے ریٹائر ہوئے جب کہ علاّمہ نیاز فتح پوری کے مشہور مجلّے ’’نگار‘‘ کی مجلسِ ادارت سے آخری وقت تک وابستگی برقرار رکھی۔

سرشار صدیقی کے شعری مجموعوں میں پتّھر کی لکیر، زخمِ گل، ابجد، بے نام، خزاں کی آخری شام، اساس، میثاق، آموختہ اور اعتبار شامل ہیں جب کہ ان کی نثری تخلیقات کے مجموعے ارتقا، حرفِ مکرّر، اجمال، نا تراشیدہ اور رفتگاں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے

چہرے کو بحال کر رہا ہوں
دنیا کا خیال کر رہا ہوں

اک کارِ محال کر رہا ہوں
زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں

وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں
میں ان کا ملال کر رہا ہوں

اشعار بھی دعوتِ عمل ہیں
تقلیدِ بلال کر رہا ہوں

تصویر کو آئینہ بنا کر
تشریحِ جمال کر رہا ہوں

چہرے پہ جواب چاہتا ہوں
آنکھوں سے سوال کر رہا ہوں

کچھ بھی نہیں دسترس میں سرشارؔ
کیوں فکرِ مآل کر رہا ہوں

Comments

- Advertisement -