تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

یومِ وفات: سیاست سے ادب تک شائستہ اکرامُ‌ اللہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

تحریکِ آزادی میں فعال کردار ادا کرنے والی شائستہ اکرامُ اللہ نے قیامِ‌ پاکستان کے بعد سفارت کار کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں اور علم و ادب کے میدان میں اپنے زورِ قلم کے لیے بھی پہچانی گئیں۔

وہ 22 جولائی 1915ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ شائستہ اکرام اللہ کے والد حسّان سہروردی ہندوستان میں برطانوی وزیر کے مشیر تھے۔ ان کے شوہر اکرام اللہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان کی شادی 1932ء میں ہوئی تھی۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اس زمانے کی اپنی یادوں کو تحریری شکل بھی تھی جن میں حقائق بیان کرتے ہوئے انھوں نے بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

انھوں نے یادوں بھری اپنی کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

وہ شائستہ اختر سہروردی کے نام سے شادی سے پہلے افسانے لکھا کرتی تھیں جو اس وقت کے مشہور اور قابلِ ذکر ادبی پرچوں میں شایع ہوتے تھے۔ 1940ء میں وہ لندن یونیورسٹی کی پہلی ہندوستانی خاتون بنیں جس نے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا۔

انھیں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ مراکش میں بحیثیت سفارت کار بھی خدمات انجام دیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ نے افسانوی ادب کو اپنا مجموعہ کوششِ ناتمام کے نام سے دیا، دلّی کی خواتین کی کہاوتیں اور محاورے، فرام پردہ ٹو پارلیمنٹ، لیٹرز ٹو نینا، اور دیگر کتب ان کے ادبی مشاغل کی یادگار ہیں۔

بیگم شائستہ اکرام اللہ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے نشانِ امتیاز عطا کیا گیا تھا۔ انھوں نے 10 دسمبر 2000ء کو وفات پائی اور کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں پیوندِ خاک ہوئیں۔

Comments

- Advertisement -