تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

شاذ تمکنت: خود ہی عاشق اور معشوق بھی، زندہ دل اور زود رنج بھی

آج اردو کے معروف شاعر شاذ تمکنت کا یومَِ وفات ہے جن کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔

ان کا اصل نام سید مصلح الدین تھا جو 31 جنوری 1933 کو پیدا ہوئے اور 18 اگست 1985ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے والد نظام دکن کے ہاں ملازم تھے۔

شاذ تمکنت نے روایتی اور جدید شاعری کے درمیان جو پُل تعمیر کیا وہ خود میں ایک دَور کا آئینہ دار ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں جہاں ذاتی زندگی کے دکھ درد ظاہر ہیں، وہیں ان کا دکھ، زمانہ کے عمومی تجربہ کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

شاذ تمکنت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے ابھرے لیکن غزل میں بھی اپنی منفرد شناخت بنائی۔ ان کی ابتدائی دور کی نظموں کی نمایاں خصوصیت مرصّع مرقع نگاری ہے۔ ان کی بیش تر نظموں میں تشبیہی اور وصفی مرکبات ان کے اظہار کا جزو لاینفک ہیں۔

وفات کے وقت شاذ تمکنت جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں ریڈر کے عہدہ پر کام کررہے تھے۔

شاذ تمکنت کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں تراشیدہ (1966)، بیاضِ شام (1973)، نیم خواب (1977) اور دستِ فرہاد شامل ہیں جو بعد از مرگ 1994 میں شایع ہوا۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا۔

مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے

ان کی مناجات "کب تک مرے مولا ” اور ایک نغمہ ” سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو” کو گلوکاروں نے گایا اور یہ کلام بہت مقبول ہوا۔

Comments

- Advertisement -