تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

زمزمۂ حیات اور غزال و غزل کے شاعر سراج الدّین ظفر کا تذکرہ

6 مئی 1972ء کو اردو کے معروف شاعر سراج الدّین ظفر وفات پاگئے تھے۔ وہ دنیائے ادب میں اپنے منفرد لب و لہجے اور اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

جہلم میں‌ پیدا ہونے والے سراج الدّین ظفر کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ والدہ بیگم زینب عبدالقادر اردو کی مشہور مصنفہ تھیں جب کہ نانا فقیر محمد جہلمی سراج الاخبار کے مدیر تھے اور ان کی کتاب حدائقُ الحنیفہ ایک بلند پایہ تصنیف تسلیم کی جاتی ہے۔

سراج الدین ظفر نے شاعری تخلیق کرنے کے ساتھ افسانے بھی لکھے۔ انھیں منفرد لب و لہجے کا شاعر کہا جاتا ہے۔ نئی زمینیں اور ادق قافیے ان کے کلام کی خوب صورتی اور ان کے فن کی انفرادیت کا ثبوت ہیں۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے زمزمہ حیات اور غزال و غزل منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ غزال و غزل وہ مجموعہ تھا جس کے لیے 1968ء میں انھیں آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ سراج الدین ظفر کی شاعری میں حسن و شباب اور رندی و سرمستی کے موضوعات ملتے ہیں۔

ان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں
شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں

اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں
پیچ، اے زلف سیہ فام ابھی باقی ہیں

اک سبو اور کہ لوحِ دل مے نوشاں پر
کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں

ٹھہر اے بادِ سحر، اس گلِ نورستہ کے نام
اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں

اٹھو اے شب کے غزالو کہ سحر سے پہلے
چند لمحاتِ خوش انجام ابھی باقی ہیں

اردو زبان کے اس نام ور شاعر کی ابدی آرام گاہ کراچی میں ہے۔

Comments

- Advertisement -