تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جادو بیاں اور ہر دل عزیز، طارق عزیز کی پہلی برسی

آج طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم نگری تک بے مثال کام کیا اور ان کے منفرد اندازِ میزبانی نے پروگرام کے شائقین کو ان کا پرستار بنا دیا۔ پچھلے سال 17 جون کو طارق عزیز نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

علم و ادب، فنونِ لطیفہ بالخصوص پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں طارق عزیز کی خاص پہچان ان کی منفرد آواز اور شستہ و شائستہ لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو تھا۔ نیلام گھر نے انھیں ہفت آسمان مقبولیت دی۔ وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے اس معلوماتی اور ذہنی آزمائش کے پروگرام کے میزبان تھے۔ وہ اپنے پروگرام کا آغاز مخصوص انداز میں اس جملے سے کرتے، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘ جو بہت مشہور ہوا۔ انھوں نے پروگرام کے حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کو بھی مدنظر رکھا۔ وہ حاضر باش اور طباع تھے اور اکثر اس طرح‌ شوخیِ اظہار سے کام لیتے کہ سبھی مسکرانے پر مجبور ہو جاتے۔

چار دہائیوں تک جاری رہنے والے اس پروگرام کو ’بزمِ طارق عزیز‘ ہی کا نام دے دیا گیا تھا۔

طارق عزیز ایسے فن کار تھے جو علم دوست اور شائقِ مطالعہ بھی تھے، وہ مختلف موضوعات پر جامع اور مدلّل طریقے سے اظہارِ خیال کرتے اور ان کی گفتگو سے علمیت، قابلیت اور ذہانت جھلکتی تھی۔ برجستہ اور موقع کی مناسبت سے کوئی مشہور قول سنانا یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہلِ محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔

طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

انھوں نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، ہار گیا انسان میں بھی انھیں‌ بطور اداکار دیکھا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوچکا ہے۔ اردو زبان میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

لاہور میں انتقال کرجانے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

1992ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

Comments

- Advertisement -