تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

Comments

- Advertisement -