تازہ ترین

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

استاد دامن: چھوٹے سے کمرے میں زندگی گزار دینے ایک بڑا شاعر

استاد دامن مزدوروں، محنت کشوں، غریب اور مظلوم طبقے کی آواز بنے۔ وہ عوام کے شاعر تھے۔ انھوں نے ہمیشہ استحصالی طبقے کی مذمت کی اور ملک کے پسے ہوئے اور مظلوم عوام کا ساتھ دیا۔ حق اور سچ کا ساتھ دینے اور عوام کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنانے والے استاد دامن 1984ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

حاکمِ وقت اور استحصالی ٹولے کے سامنے جس بے خوفی سے انھوں نے جرأتِ اظہار کا راستہ اپنایا، اس کا مظاہرہ شاذ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ فیض اور جالب کی طرح انھوں نے جبر اور ناانصافی کے خلاف عوام میں‌ شعور بیدار کیا۔ استاد دامن کی وجہِ شہرت ان کا پنجابی کلام ہے جسے انھوں نے سیاسی اور عوامی اجتماعات میں‌ پڑھا اور مقبول ہوئے۔

ان کی مقبولیت اور کلام کی تاثیر کا عالم یہ تھا کہ دلّی میں منعقدہ ایک مشاعرے میں حاضرین ان کا کلام سُن کر رو پڑے تھے۔ اس جلسے میں پنڈت نہرو بھی شریک تھے۔ مشہور ہے کہ نہرو نے انھیں ہندوستان منتقل ہو جانے کی دعوت دی تو استاد دامن نے جواب دیا: ’اب میرا وطن پاکستان ہے، میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں۔‘

استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی اور اردو زبانیں جانتے تھے۔ وسیعُ المطالعہ تھے اور عالمی ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔ کتب بینی کی پختہ عادت نے ان کی فکر و نظر کو خوب چمکایا۔ اپنے وطن کی سیاست کا حال، امرا کی عیّاشیاں اور اشرافیہ کے چونچلے دیکھنے والے استاد دامن جب اپنے سماج میں سانس لیتے عوام کو دیکھتے تو افسردہ و ملول ہوجاتے۔ اس مشاہدے اور تجربے نے ان کی شاعری میں وہ سوز و گداز پیدا کیا جس میں غریبوں کے لیے امید اور ولولہ تھا، لیکن ان کے = یہی اشعار مسند نشینوں کے سینے میں نشتر بن کر اتر گئے۔

پنجابی ادب کی پہچان اور صفِ اوّل کے شاعر استاد دامن کی سادہ بود و باش اور بے نیازی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے چھوٹے سے کھولی نما کمرے میں‌ زندگی گزاری جس میں کتابیں بھی گویا ان کے ساتھ رہتی تھیں۔

ان کا اصل نام چراغ دین تھا۔ وہ 1911ء میں پیدا ہوئے۔ لاہور ان کا مستقر تھا جہاں ان کے والد کپڑے سینے کا کام کرتے تھے۔ انھوں نے خیّاطی کا کام والد سے سیکھا اور بعد میں کسی جرمن ادارے سے اس میں باقاعدہ ڈپلوما بھی حاصل کیا۔ استاد دامن نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، لیکن والد کے انتقال کے بعد ان کا کام سنبھالنا پڑا۔ اس پیشے سے انھیں کوئی لگاؤ نہ تھا، لیکن تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جب نوکری نہ ملی تو مایوس ہوکر باغبان پورہ میں اپنی دکان کھول لی اور سلائی کا کام کرنے لگے۔

چراغ دین بچپن سے ہی شاعری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اکثر والد کو کہہ کر دکان سے مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔ ابتدائی دور میں استاد دامن نے محبّت اور محبوب کو اپنی شاعری کا موضوع بنائے رکھا، لیکن مطالعہ اور سیاسی و سماجی شعور بڑھنے کے ساتھ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں ترانے لکھنے لگے۔

استاد دامن کی شاعری میں بہت تنوّع تھا۔ انھوں نے جہاں حبُ الوطنی کے ترانے لکھے، سیاسی افکار اور نظریات کو شاعری کا موضوع بنایا اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی، وہیں ثقافت اور لوک داستانوں، صوفیانہ اور روایتی مضامین کو بھی اپنی شاعری میں برتا۔

لاہور سے ان کا عشق اور تعلق تاعمر برقرار رہا، لیکن اسی شہر سے ان کی ناخوش گوار یادیں بھی وابستہ تھیں۔ آزادیٔ ہند کی تحریک کے زمانے میں کانگریس سے منسلک تھے جس پر لاہور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا اور دکان بھی لوٹ لی گئی۔ اسی زمانے میں ان کی رفیقِ حیات خالقِ حقیقی سے جاملی تھیں جب کہ تقسیم کے بعد بہت سے ہندو اور سکھ دوست اور شاگرد بھی ہجرت کرکے بھارت چلے گئے تھے۔ اس کا انھیں‌ بہت رنج تھا۔ انہی دنوں وہ مالی مسائل کا شکار بھی رہے جس نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا، لیکن استاد دامن بہت خود دار تھے۔ انھوں نے کسی سے کچھ نہیں مانگا۔

ہر دور میں مشاہیرِ ادب اور قابل شخصیات نے پنجابی زبان و ادب کے لیے استاد دامن کی خدمات کے معترف رہے ہیں۔

پنجابی زبان کا یہ مقبول شاعر لاہور میں مادھو لال حسین کے مزار کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوا۔

Comments

- Advertisement -