تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ظہیر کاشمیری اور ان کا ایک شعر

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور سیاسی و عوامی جلسوں‌ کے دوران پنڈال میں گونجا۔ ہر تحریک میں منزل کے قریب راستے کی آخری رکاوٹ کو پار کرتے ہوئے اپنا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے اس شعر کو پڑھا جاتا ہے یہ زبان زدِ عام شعر ظہیر کاشمیری کا ہے۔

ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ وہ 1919ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔ انگریزی میں ایم اے کیا۔ گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ اسی عرصہ میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔

وہ ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ انھوں نے روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور میں بھی کام کیا۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

حکومتِ پاکستان نے ظہیر کاشمیری کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

اردو کے اس ممتاز شاعر نے 12 دسمبر 1994ء کو دارِ فانی سے دارِ‌ بقا کا سفر اختیار کیا اور لاہور میں پیوندِ خاک ہوئے۔

Comments

- Advertisement -