تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزرا قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دلی فسادات: انتہا پسندوں نے تشدد کے بعد ہرہنہ کیا، صحافی کے چشم کشاف انکشافات

دہلی: بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں ہندو انتہا پسندوں نے برہمن ذات کے صحافی اور اُس کے ساتھیوں کو بھی نہ بخشا اور اُس کو برہنہ کرڈالا۔

بھارت کی غیر سرکاری میڈیا رپورٹ کے مطابق 26 فراری کے روز دہلی کے شمال مشری علاقے جن چوک پر ہونے والے فسادات کی کوریج کے دوران انتہا پسندوں کے ایک گروپ نے صحافی سشیل مانو اور اُن کے ساتھیوں کو روک کر تشدد کیا۔

سشل نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے متعلق ہوشربا انکشافات کیے جس میں انہوں نے بتایا کہ دلی پولیس نے انتہاء پسند بلوائیوں کا مکمل ساتھ دیا۔

سشل کا کہنا تھا کہ ’میں اور ہمارے دو ساتھی دلی میں ہونے والے فسادات کی کوریج کے لیے صبح دس بجے دفتر سے نکلے اور دو گھنٹے میں ہم نے سلیم پور، جعفرآباد، کردم پوری، نورالہیٰ، بابر پور کے علاقوں کی کوریج کی‘۔

مزید پڑھیں: دہلی میں بدترین مسلم کُش فسادات، ہندو انتہا پسندوں نے 42 مسلمانوں کی جان لے لی

انہوں نے بتایا کہ  ’12 بجے کے قریب مجھے موبائل فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ نورالہی میں ایک شخص کو گولی مار کر قتل کردیا گیا جس کے بعد ہم تینوں ساتھی موٹر سائیکل پر جائے وقوعہ پہنچے اور متاثرین کے بیانات ریکارڈ کیے‘۔

’بعدازاں ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ جعفرآباد کے علاقے موس پور قتل و غارت سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، ہم نے وہاں جانے کا ارادہ کیا اور جیسے ہی گلی نمبر 7 میں داخل ہوئے تو وہاں پولیس افسر بھی زخمی حالت میں پڑا ہوا تھا جسے کوئی اسپتال لے جانے کو تیار نہ تھا‘۔

سشیل کے مطابق ’میں اس تمام حالات کو فیس بک پر لائیو کیا، ہم گلی میں داخل ہوئے اور 100 میٹر چلے ہوں گے تو اسی دوران دو تین لڑکے آئے اور انہوں نے ہمیں روک لیا، ہم نے اپنی شناخت کروانے کی کوشش کی تو انہوں نے تشدد کیا جس کے بعد 25 بلوائیوں کا ہجوم آیا جو مسلح تھا‘۔

’انہوں نے ہم پر تشدد کرنا شروع کردیا جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم برہمن ذات کے ہندو ہیں تب بھی انہوں نے تشدد کو نہ روکا، اسی دوران ایک شخص آیا اور اُس نے پستول لوڈ کر کے ماتھے پر رکھ دیا، انہوں نے اپنے یقین کے لیے ہمیں برہنہ کیا اور پھر پہچان کی، بعد ازاں دلی پولیس کا ایک سپاہی آیا اور اُس نے ہمیں حکم دیا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ‘۔

سشیل کے مطابق میرے پاس متازع شہریت قانون کا ایک پمفلٹ موجود تھا، جس پر بلوائیوں اور اہلکار نے مل کر دوبارہ روک لیا، میں نے انہیں یقین دلایا کہ کوریج کے دوران ملا تو انہوں نے چھین کر پھاڑ دیا، ہم وہاں سے بابر پور مسلمانوں کے علاقے گئے، انہوں نے ہمیں طبی امداد فراہم کی، پانی پلایا، ہم پرچہ درج کروانا چاہتے تھے مگر ایک ساتھی نے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ اور جمیل کہاں گئے؟ دہلی فسادات میں دل دہلا دینے والی خبریں سامنے آنے لگیں

’اسی دوران ایک رکشے والا مسلمان آیا اور اُس نے ہمیں سیلا پور تک چھوڑا، انہوں نےہمیں گھر تک چھوڑنے کی پیش کش بھی کی، میں نے دلی پولیس کو فون پر اطلاع دی مگر کچھ نہ ہوا، آن لائن درخواست جمع کرائی مگر ابھی تک واقعے کی ایف آئی آر درج نہ ہوسکی‘۔

Comments

- Advertisement -