تازہ ترین

صدرمملکت آصف زرداری سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

صدر مملکت آصف علی زرداری سے سعودی وزیر خارجہ...

خواہش ہے پی آئی اے کی نجکاری جون کے آخر تک مکمل کر لیں: وفاقی وزیر خزانہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا...

وزیراعظم شہباز شریف سے سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف نے سعودی وزیر...

سعودی وفد آج اسلام آباد میں اہم ملاقاتیں کرے گا

اسلام آباد : سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن...

فیض آباد دھرنا : انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو کلین چٹ دے دی

پشاور : فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ...

ہزاروں انسانوں کا گھر‘ ترکی کا زیرِزمین شہر

کیا آپ جانتے ہیں کہ ترکی میں ہزاروں سال قدیم سینکڑوں زیرِ زمین شہر ہیں جن میں ایک وقت میں ہزاروں افراد رہ سکتے تھے‘ یہ شہر دو‘ تین ‘ چار اور پانچ منازل پر مشتمل تھے۔

ترکی کے صوبے نوشہر میں ایک مکان کی تعمیرِنو کے دوران ایک غار میں داخل ہونے کا راستہ اتفاقاً کھل گیا اور اس راستے نے موجودہ دور کے ماہرین ِ آثارِ قدیمہ پر حیرت کے پہاڑ توڑ دیے۔

ڈرنیکو نامی یہ زیر ِ زمین شہر ترکی میں دریافت ہونے والے اس طرح کے شہروں میں سب سے بڑا ہے جس میں لگ بھگ بیس ہزار سے تیس ہزار افراد اپنے کھانے پینے اور مال مویشی کے ساتھ زندگی بسر کرسکتے تھے۔

کئی منزلوں پر مشتمل یہ شہر آپس میں سرنگوں کے ذریعے جڑا ہوا ہے اور ہوا کی زیر زمین رسائی کے لیےجا بجا نالیاں بنائی گئی ہیں‘ یہ شہر پانچ منزلوں پر مشتمل ہے اور دفاعی نقطہ نظر سے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ہر منزل کو ایک بھاری پتھر کی مدد سے اس طرح بند کیا جاسکتا ہے کہ پھر اسے باہر سے کسی طرح کھولنا ممکن نہیں رہتا۔

اس شہر میں ہمیں رہائشی کمرے‘ خوراک اسٹور کرنے کی جگہیں‘ ایک اسکول یا مذہبی تربیت گاہ اور پھر یونانی طرز کے ایک چرچ کے آثار بھی ملتے ہیں جو کہ یقیناً عیسائیوں کی جانب سے یونانی زبان اور بود وبا ش اختیار کرلینے کے بعد تعمیر کیا گیا ہوگا۔ اس سے پہلے اس شہر میں بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں اختلاف ہے۔


رومی سلطنت کی 22 ہزار سال قدیم کندہ کاری دریافت

 قدیم کراچی کی جدید ٹرام سروس

مصر میں 7ہزار سال پرانا قدیم شہر دریافت


یہ حیرت انگیز شہر تاریخ کے کسی انجان موڑ پر اس خطے میں بسنے والوں نے کس ضرورت کے تحت تعمیر کیا تھا ‘ ماہرین اس پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ شہر بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ کے لیے تعمیر کیا گیا تھا تو چند ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس شہر کے معمار فنِ تعمیر میں اپنا لوہا منوانا چاہتے تھے۔

خلائی سائنس پر یقین رکھنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ اس شہر کی تعمیر کا مقصد ماضی میں زمین پر آنے والی خلائی مخلوق سے بچنا تھا‘ زیر زمین آباد اس شہر کو فضا سے دیکھنے سے قاصر ہونے کے سبب خلائی مخلوق اس علاقے کو ویرانہ تصور کرتی ہوگی اور یوں یہاں کے باسی کسی انجانی مخلوق کا نشانہ بننے سے بچ گئے۔

ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ شہرقدیم برفانی دورکے عروج میں موسم کی سختی سے بچنے کےلیے تعمیر کیے گئے تھے جو کہ دس ہزار سال قبلِ مسیح تک جاری رہا۔ اس زمانے میں موسم کی سختی سے نمٹنے کے لیے یہ شہر واقعی انجینئرنگ کا شاہکار ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب کچھ ماہرین کے مطابق یہ شہر محض آٹھ سو سال قبلِ مسیح میں تعمیر ہوئے اور ان کی تعمیر کا مقصد بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ تھا تاہم بعد میں نامعلوم وجوہات کی بناپر ان شہروں کو ترک کردیا گیا۔

کچھ مقامی روایات کے مطابق یہ شہر اٹھارویں صدی تک حکومت کے باغیوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتے رہے اور سلطنتِ عثمانیہ کے باغی اپنی جان بچانے کے لیے یہ چھپتے رہے تاہم عثمانیوں کے زوال کے بعد اس شہر کا استعمال ترک ہوگیا اور اس کے بعد یہ طویل عرصے تک انسانوں سے پوشیدہ رہا۔

نو شہر میں اس نوعیت کے دو سو شہر ہیں جن میں زیادہ تر دو منزلوں پر مشتمل ہیں جبکہ 40 شہر تین یا زائد منزلوں پر مشتمل ہیں جن میں ڈرنیکو سب سے بڑا ہے اور اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آٹھ کلومیٹر کے فاصلے واقعہ کیماکلی شہر سے سرنگ کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ڈرنیکو اور کیماکلی اس سلسلے کے سب بہترین اور عمدہ تعمیر کا شاہکار شہر ہیں۔

سنہ 1963 میں ڈرنیکو کے آدھے شہر کو عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا اور تب سے اب تک ہر سال ہزاروں سیاح اس قدیم شہر کو دیکھنے آتے ہیں جس کی تاریخ ابھی بھی اسرار کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے۔


اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں