کیپ ٹاؤن: نسل پرستی کے خلاف ایک توانا آواز خاموش ہو گئی، ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے۔
تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈيسمنڈ ٹوٹو کا گزشتہ روز 26 دسمبر کو انتقال ہو گیا، ان کی عمر 90 سال تھی۔
نسلی امتیاز کے خلاف ایک آئیکون شخصیت ڈیسمنڈ ٹوٹو کی موت کے بعد انھیں خراج تحسین کے طور پر جنوبی افریقہ بھر پر ایک عمومی اداسی چھائی ہوئی ہے، نسلی امتياز کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے ملکی و عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے۔
ڈيسمنڈ ٹوٹو 1948 سے 1991 تک جنوبی افریقہ میں سیاہ فام اکثریت کے خلاف سفید فام اقلیتی حکومت کی طرف سے نافذ نسلی علیحدگی اور امتیازی سلوک کی پالیسی کو ختم کرنے کی تحریک میں عالمی شہرت یافتہ رہنما نیلسن منڈیلا کے ساتھی رہے تھے۔
ڈیسمنڈ ٹوٹو کو 1984 میں نسل پرستی کے نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں کردار ادا کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا، جنوبی افریقی صدر رامافوسا نے ان کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نسل پرستی کے خلاف سرگرم کارکن اور انسانی حقوق کی عالمی مہم چلانے والے رہنما تھے۔
My deepest condolences on the passing of Archbishop Desmond Tutu, Nobel Laureate, close confidant of Nelson Mandela, an icon of anti-apartheid struggle & champion of human rights. His critical role in liberation & national reconciliation are an inspiration for future generations.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 26, 2021
وزیر اعظم عمران خان نے ڈيسمنڈ ٹوٹو کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اور قومی مفاہمت میں ڈیسمنڈ ٹوٹو کا اہم کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے بیان میں انھوں نے کہا نیلسن منڈیلا کے معتمدِ خاص، نسلی عصبیت کے خلاف جدوجہد کے پیکر اور انسانی حقوق کے علم بردار نوبل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔