تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

شادی کے لیے 240 کلومیٹر پیدل چلنے والا منزل پر پہنچ کر ناامید

زندگی میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے لیکن اس اتار چڑھاؤ کے دوران کچھ ایسی خوشگوار اور تلخ یادیں باقی رہ جاتی ہیں جس میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔

سعودی عرب کے ایک بزرگ شہری کی ایسی ہی کچھ تلخ اور کچھ میٹھی یادیں اور واقعات بیان کیے ہیں، جو مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کا دور حکومت بھی دیکھ چکے ہیں، عبداللہ آل وحید نے ایک مقامی شخص کو اپنی یادوں میں‌ شریک کرتے ہوئے بتایا کہ 40 سال قبل جو گاڑی خریدی آج بھی اسی میں سفر کرتا ہوں کیوں کہ وہ میری پہچان بن چکی ہے جسے دیکھ کر لوگ میری گھر میں موجودگی یا غیر موجودگی کا باآسانی اندازہ کرسکتے ہیں۔

سعودی عرب کی الفلاح کمشنری کے رہائشی عبداللہ آل وحید نے کہا کہ ماضی میں بہت مشکلات تھیں لیکن اب زندگی آسان ہے، پہلے کئی کئی روز کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا لیکن اب انواع و اقسام کے کھانے نصیب ہیں۔

انہوں نے اپنے والد کی غیرموجودگی کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میرے والد میری بہن کے ہمراہ ریاض چلے گئے تھے، اور تین روز تک مجھے اور والدہ کو بھوکا رہنا پڑا تھا۔

 

جب مجھ سے بھوک برداشت نہ ہوئی تو والدہ نے گھر کا سامان 1 فرانسیسی ریال (رائجُ الوقت کرنسی) میں فروخت کردیا،جسے لے کر میں کجھور فروش کے پاس گیا لیکن اس نے پیسے لیکر سامان دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ تمہارا باپ کچھ سامان لے گیا تھا جس کے پیسے باقی تھے۔

سعودی بزرگ نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوکر اس کا رشتہ مانگنے 240 کلومیٹر پیدل سفر کرکے گئے لیکن جب لڑکی کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی منگنی کسی اور سے ہوگئی ہے۔

انہوں نے زندگی میں تبدیلی سے متعلق بتایا کہ وہ کجھور کے درخت لگانے کا کام کرتے تھے، اس دوران کسی طرح شاہی محل تک رسائی کا موقع مل گیا اور کئی روز تک مجھے شاہی مہمان خانے میں کھانے نصیب ہوئے، بعدازاں مجھے اسی محل میں ملازمت مل گئی۔

شاہی محل میں ملازمت کے بعد ہمارے حالات تبدیل ہوئے اور اب ہر چیز میسر ہے، میرے بچے کہتے ہیں کہ اب گاڑی تبدیل کرلوں لیکن میں تبدیل نہیں کرتا کیوں اس سے ماضی کی یادیں جڑی ہیں۔

آج جو خوشحالی ہے اس پر خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرتے ہیں کیوں کہ ماضی میں بھوک مٹانے کےلیے بھی پتھر کاٹنے پڑتے تھے۔

Comments

- Advertisement -