تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

لیڈی ڈیانا کا متنازع انٹرویو : صحافی نے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا ؟ رپورٹ میں اہم انکشاف

لندن : سال 1995 میں لیڈی ڈیانا کے بی بی سی پر نشر ہونے والے متنازع انٹرویو کی انکوائری رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق بی بی سی کے صحافی نے دھوکے سے شہزادی ڈیانا کا انٹرویو کیا۔

انکوائری رپورٹ کے مطابق انٹرویو صحافتی معیار سے گر کر کیا گیا،جس سے شاہی خاندان سے متعلق غلط بیانیہ قائم ہوا، ان کے بھائی کو جعلی بینک اسٹیٹمنٹ دکھایا گیا۔

مذکورہ انٹرویو سے متعلق شہزادہ ولیم نے کہا کہ اس انٹرویو نے والدین کے رشتے کو خراب کیا تھا اور والدہ کی زندگی میں خوف، تنہائی پیدا ہوگئی تھی، انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ کا انٹرویو اب دوبارہ کبھی نشر نہیں ہونا چاہیے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو یہ خبر سامنے آئی کہ ایک تحقیقات میں یہ ثابت ہوگیا کہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے صحافی مارٹن بشیر نے 1995 میں لیڈی ڈیانا کو جعلی دستاویزات دکھا کر اور دھوکہ دہی سے انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا جو کہ بی بی سی کی پروڈیوسرز کے لیے طے گائیڈ لائنز کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔

عرب نیوز کے مطابق انکوائری رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بشیر نے نہ صرف شہزادی ڈیانا بلکہ ان کے بھائی ایرل سپنسر سے بھی جھوٹ بولا تھا تاکہ ان کو انٹرویو کے لیے قائل کیا جاسکے۔

ایرل اسپنسز کے مطابق یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ مذکورہ صحافی ان کا اعتماد حاصل کر سکے اور وہ ان کا تعارف اپنی بہن ڈیانا سے کرائیں۔

برطانوی سپریم کورٹ کے سابق جج لارڈ ڈائیسن کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بی بی سی نے بھی شفافیت اور دیانت داری کے اپنے اعلیٰ معیارات کی پاسداری نہیں کی اور بشیر نے بی بی سی کی گائیڈ لائنز کی سنگین خلاف ورزی کی۔

خیال رہے کہ لیڈی ڈیانا کے مذکورہ انٹرویو کو "پینوراما انٹرویو” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، جسے نومبر 1995 میں بی بی سی پر نشر کیا گیا تھا۔

1996میں اس وقت کے بی بی سی کے سربراہ ٹونی ہال نے انٹرویو کے حوالے سے انوسٹی گیشن کی تھی۔ تاہم لارڈ ڈائسن نے مبینہ طور پر اس انکوائری پر سخت تنقید کی ہے اور اسے غلط اور غیر مؤثر قرار دے دیا ہے۔

تحقیقات کے نتائج سامنے آنے کے بعد مارٹن بشیر نے معافی مانگ لی اور کہا کہ جعلی بینک دستاویزات دکھانا ایک بیوقوفانہ حرکت تھی ایسی حرکت جس پر مجھے بہت افسوس ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا لیڈی ڈیانا کی جانب سے انٹرویو دینے کے ذاتی فیصلے پر کوئی اثر نہیں تھا۔ بی بی سی کے موجودہ ڈٓائریکٹر جنرل ٹم ڈیو نے بھی انکوائری رپورٹ سامنے آنے کے بعد مکمل اور غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔

ٹم ڈیو نے کہا اگرچہ رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیانا کی بی بی سی کو انٹرویو دینے کے آئیڈیا میں دلچسپی تھی تاہم یہ واضح ہے کہ انٹرویو لینے کے لیے جو طریقہ اپنایا گیا وہ ناظرین کے توقعات سے کم تھی۔ ہمیں اس پر بہت زیادہ افسوس ہے۔ لارڈ ڈائیسن نے ناکامیوں کی واضح نشاندہی کی ہے۔

1995میں لیا گیا پینوراما کے نام سے مشہور انٹرویو نے مارٹن بشیر کو ایک اسٹار بنا دیا تھا کیونکہ اسے دو کروڑ 30 لاکھ لوگوں نے دیکھا تھا اور ڈیانا نے اپنی زندگی کے کئی رازوں سے اس انٹرویوں میں پردہ اٹھایا تھا۔

اسی انٹرویو کے دوران ڈیانا نے مشہور جملہ کہا تھا کہ اس شادی میں ہم تینوں جس میں ان کا اشارہ کمیلا پارکر کی طرف تھا۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس انٹرویو کے لیے بشیر نے جتنے ایوارڈز جیتے تھے وہ سب واپس کر دیے جائیں گے۔

Comments

- Advertisement -