تازہ ترین

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

ڈینگی وائرس کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار دریافت

7

واشنگٹن : محقیقین نے وولباکیا بیکٹیریا کی مدد سے خطرناک ڈینگی وائرس کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار دریافت کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مچھروں پر حملہ کرنے والے بیکٹیریا کی مدد حاصل کرنے سے ڈینگی بخار کے کیسز میں بڑی حد تک کمی آئی ہے۔

وولباکیا بیکٹیریا ان کیڑوں کو مارنے کے بجائے ان کے لیے وائرس پھیلانا مشکل بنا دیتے ہیں۔

ڈینگی کنٹرول کرنے کے نئے طریقوں کی فوری ضرورت ہے کیونکہ گذشتہ 50 برسوں میں ڈینگی کے کیسز میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

ڈینگی بخار کیا ہے؟

اس کی علامات ہر شخص میں مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہیں۔

کچھ لوگوں میں انفیکشن کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ کچھ لوگوں میں نزلہ و زکام جیسی علامات سامنے آتی ہیں، کچھ لوگ تو ڈینگی سے ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔

اس بخار کو ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پٹھوں اور ہڈیوں میں سخت درد کا سبب بنتا ہے۔

ورلڈ موسکیٹو پروگرام کے پروفیسر کیمرون سِمنز نے کہا کہ ڈینگی وائرس، ملیریا جتنی ہلاکتوں کا سبب نہیں بنتا اس سے زیادہ بیماری پھیلاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

وولباکیابیکڑیا:

یہ مانا جاتا ہے کہ بیکٹیریا مچھروں کے اندر ایسی جگہوں پر بسیرا کر لیتے ہیں جہاں ڈینگی وائرس کو بسنا ہوتا ہے اور بیکٹیریا وہ وسائل استعمال کر لیتے ہیں جن کی ضرورت وائرس کو ہوتی ہے۔

اگر ڈینگی وائرس اپنی نقول نہ بنا سکے اور مچھروں کے اندر اپنی تعداد نہ بڑھا سکے تو مچھر کے کاٹنے پر اس مرض کے پھیلنے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔

حشرات کی کئی انواع پر بیکٹیریا قدرتی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں جس میں آپ کے کچن میں اڑتی ننھی منی پھل مکھیاں بھی شامل ہیں۔

مگر ڈینگی پھیلانے والا مچھر ایڈیز ایجپٹی عام طور پر اس سے متاثر نہیں ہوتا۔

چنانچہ محققین مچھروں کے انڈوں میں وولباکیا کی مختلف انواع انجیکٹ کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کون سے بیکٹیریا مختلف موسموں میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

نتائج:

دنیا بھر میں کئی تجربات جاری ہیں، ان میں سے ایک کے نتائج تحقیقی جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہوئے ہیں اور سائنسدان امریکن سوسائٹی آف ٹروپیکل میڈیسن اینڈ ہائیجین کی سالانہ میٹنگ میں دیگر ڈیٹا پر بحث کر رہے ہیں۔

برازیل کی اوسوالڈو فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر لوسیناو موریرا نے کہا کہ ہم نے جن علاقوں میں بیکٹیریا والے مچھر چھوڑے ہیں وہاں چکن گونیا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دیگر علاقوں کی نسبت 70 فیصد کم ہوئی ہے جہاں وائرس زدہ مچھروں کو نہیں چھوڑا گیا۔

امریکن سوسائٹی فار ٹراپیکل میڈیسن اورہائیجین کے صدر ڈاکٹر چینڈی جان نے کہا کہ جب ڈینگی وائرس کو روکنا مشکل ہو رہا ہے تو ایسے حالات میں یہ ایک بہت عمدہ کام ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طریقہ کی کامیابی کا انحصار جدید سائنس اور لوگوں کی بھرپور شمولیت پر ہے۔

Comments

- Advertisement -