تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

چین نے نئی "ڈی این اے ویکسین” بنالی، ٹرائل کی منظوری

چین میں مقامی طور پر سائنو ویک ویکسین اور امریکی بائیو ٹیک کمپنی انوویو کی جانب سے تیار کی جانے والی ڈی این اے ویکسین کے امتزاج کے منظوری دی گئی ہے۔

انوویو کے مطابق اس ٹرائل کا آغاز چین میں موسم خزاں میں ہوگا، جس میں بالغ افراد میں ویکسینز کے امتزاج کے محفوظ ہونے اور افادیت کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے سربراہ گاؤ فو سمیت دیگر طبی حکام کی جانب سے چینی ویکسینز کی افادیت کی شرح کم ہونے پر پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

انوویو کے سی ای او جے جوزف کم نے بتایا کہ ڈی این اے ویکسین پرائمری اور بوسٹری ویکسین کے طور پر کام کرسکے گی جس کی وجہ اس کے قابل برداشت ہونے، متوازن مدافعتی ردعمل اور آسانی سے اس کی ہر جگہ ترسیل کرنا ممکن ہے۔

انوویو کی چینی شراکت دار اور ٹرائل اسپانسر کمپنی ایڈوانسڈ بائیو فارماسیوٹیکل کے چیئرمین وانگ بن نے بتایا کہ ویکسینز کے امتزاج سے ان کی بیماری سے لڑنے کی طاقت بڑھ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پری کلینکل تحقیقی کام میں دریافت کیا گیا ہے کہ دو مختلف ویکسین سے قوت مدافعت کو بڑھایا جاسکتا ہے جس سے زیادہ ٹھوس اور متوازن مدافعتی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

برطانیہ کی لیسٹر شائر یونیورسٹی کے وائرلوجسٹ جولیان ٹانگ نے کہا کہ انسانی ٹرائلز کے ڈیٹا کو دیکھنے کی ضرورت ہوگی تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ امتزاج دیگر ویکسینز کے امتزاج کے مقابلے میں کس حد تک قابل موازنہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ویکسینز کے امتزاج سے پیدا ہونے والا ردعمل اب تک کسی ایک ویکسین کی دو خوراکوں کے مقابلے میں مدافعتی نظام کو بڑھاتا ہوا نظر آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین اور فائزر/ بائیو این ٹیک ایم آر این اے ویکسین کے امتزاج کی کامیابی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دیگر ویکسینز کا امتزاج بھی اتنا ہی طاقتور ہوگا مگر کوشش کرکے نتائج کو دیکھنا چاہیے۔

انوویو کی ڈی این اے ویکسین کمرے کے درجہ حرارت میں ایک سال سے زیادہ عرصے تک مستحکم رہ سکتی ہے اور عام ویکسین کے مقابلے میں اس کے لیے انجیکشن کی سوئی زیادہ گہرائی میں داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

انوویو کے مطابق اس عمل سے ڈی این اے پلازما براہ راست جسمانی خلیات میں داخل ہوکر قابل برداشت مدافعتی ردعمل کو پیدا کرتا ہے۔ خیال رہے کہ اب تک کسی بھی ڈی این اے ویکسین کی انسانوں کے استعمال کے لیے منظوری نہیں دی گئی۔

Comments

- Advertisement -