تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

ڈیجیٹل دور میں کچھ نہ کرنے کا فن

کیا آج کل کے دور میں جب ہر شخص کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے جسے ہر چند منٹ بعد کھول کر چیک کیا جاتا ہے، ’کچھ نہ کرنا‘ ممکن ہے؟ بظاہر ایسا مشکل تو ہے، لیکن ناممکن نہیں۔

ایک امریکی مصنفہ جینی اوڈیل کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں کچھ وقت ایسا ضرور نکالنا چاہیئے جس میں کچھ بھی نہ کیا جائے۔

جینی ’ڈوئنگ نتھنگ‘ نامی کتاب کی مصنفہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے اسمارٹ فون پر مختلف خبروں اور لوگوں سے جڑے رہتے ہیں۔ ہر چند منٹ بعد ہمیں کوئی پیغام موصول ہوتا ہے اور ہم چاہے اسے پسند کریں یا نہ کریں، ہم اس کا جواب دیتے ہیں اور اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ان سب سے ڈس کنیکٹ ہونا اور رابطہ منقطع کرنا ضروری ہے۔ ’ڈس کنیکٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں سے رابطہ ختم کرلیا جائے، یا ہر لمحہ آتی خبروں سے مکمل طور پر لاتعلق ہوا جائے۔ لیکن کچھ وقت کے لیے ان چیزوں کو ایک طرف رکھ کر ’کچھ نہ کرنا‘ ضروری ہے‘۔

لیکن جینی کا یہ بھی ماننا ہے کہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ خود کو اس سب سے ڈس کنیکٹ کرسکے، ’ڈس کنیکٹ ہونے کی صلاحیت ایک پرتعیش سہولت بنتی جارہی ہے‘۔

دراصل جینی کا اشارہ اس ٹیکنالوجی کے نشہ آور اثرات کی جانب ہے۔

ماہرین اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ جدید دور کی یہ اشیا لوگوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون کی ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کوکین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ ڈیجیٹل لت کا شکار افراد خصوصاً بچے جب اپنی لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔

اس کے برعکس جب اس لت سے دور رہا جائے تو طبیعت میں بیزاری، اداسی اور بوریت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض افراد اس لت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں چڑچڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس لت سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی جائے تو ایسی کیا شے ہے جس میں دماغ کو مصروف رکھا جائے؟

جینی کے مطابق اس کا حل جسمانی سرگرمی ہے۔ ’گھر سے باہر نکلیں، کھلی فضا میں سانس لیں، لوگوں سے ملیں، آس پاس کی اشیا کا جائزہ لیں۔ اور اگر آپ کے نزدیک کوئی پرفضا مقام یا پارک ہے تو آپ سے زیادہ خوش قسمت انسان آج کے دور میں کوئی نہیں‘۔

باہر نکل کر لوگوں سے (سوشل میڈیا پر نہیں، حقیقی دنیا میں) ملیں، ان سے باتیں کریں، ان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لت پر قابو پانے کے لیے فطرت کے درمیان وقت گزارنا بہترین علاج ہے، لیکن تیز رفتار اور بے ہنگم ترقی نے ہمیں کنکریٹ کے جنگلوں کا تحفہ دے کر قدرتی جنگل ہم سے چھین لیے۔ لہٰذا روزانہ نہ سہی لیکن ہفتے میں ایک دن ضرور کسی پرفضا مقام پر، پارک میں، ساحل سمندر پر یا درختوں کے بیچ گزارا جائے۔

’اور اگر یہ سب ناممکن ہے تو اپنے گھر کے کھلے حصے میں لیٹ کر آسمان کو تکیں، بادلوں کو دیکھیں، سورج کو ڈھلتا اور چاند کو ابھرتا ہوا محسوس کریں اور تارے گنیں‘، جینی کہتی ہیں۔

آپ جینی کے اس خیال سے کتنے متفق ہیں؟

Comments

- Advertisement -