اوکلاہوما: دوہرے قتل کے مجرم ڈونلڈ گرانٹ کو اوکلاہوما میں مہلک انجکشن کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی، وہ امریکا میں 2022 کی پہلی سزائے موت پانے والا شخص ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اوکلاہوما کے ایک شخص کو جسے فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے سزائے موت کی پیش کش کی گئی تھی، جمعرات کی صبح مہلک انجکشن کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
محکمہ اصلاحات کے ڈائریکٹر کے حوالے سے امریکی میڈیا نے بتایا کہ سزائے موت صبح 10:03 پر شروع ہوئی، 10:08 پر اسے بے ہوش قرار دیا گیا، اور آخر کار 10:16 پر گرانٹ کو مردہ قرار دے دیا گیا۔
سزائے موت سے قبل گرانٹ نے ٹوٹے پھوٹے آخری الفاظ ادا کیے جو 2 منٹ تک جاری رہے، اس کے بعد سزائے موت کے چیمبر میں جیل کے عملے کے ایک رکن نے اسے روکا اور مائکرو فون کاٹ دیا۔
گرانٹ نے آخری الفاظ ادا کیے "مجھے سزا مل گئی، یہ اور کچھ بھی نہیں ہے، میں تیار ہوں، بیٹا، کوئی دوا نہیں، کچھ بھی نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔” مائیکروفون بند ہونے کے بعد بھی گرانٹ بولتا رہا، اور گواہ کے کمرے کی اگلی قطار میں بیٹھے اپنے خاندان کے افراد کی طرف دیکھتا رہا۔ اس نے کہا "میں کائنات میں ضم ہونے والا ہوں، لیکن میں پھر آؤں گا، خدا موجود ہے، سچا خدا۔” ایک موقع پر ایک دم اس کے چہرے پر آنسو بہنے لگے تھے۔
گرانٹ کا جرم؟
گرانٹ نے 29 سالہ برینڈا میک ایلیا اور 43 سالہ فیلیسیا سوزیٹ اسمتھ کو جولائی 2001 میں ڈیل سٹی کے لا کوئنٹا اِن میں اس لیے موت کے گھاٹ اتارا تھا، تاکہ اس کی ڈکیتی کا کوئی گواہ نہ رہے۔
گرانٹ نے اپنی گرل فرینڈ کی ضمانت کی رقم کے لیے ایک ہوٹل میں ڈکیتی کی تھی، اس وقت اس کی عمر 25 برس تھی، موت کے وقت اس کی عمر 46 سال تھی، ڈکیتی کے دوران ڈونلڈ گرانٹ نے ہوٹل کے 2 ملازمین پر فائرنگ کی تھی، عدالتی دستاویزات کے مطابق ایک ملازم کی فوری طور پر موت ہو گئی جب کہ دوسرے پر گرانٹ نے چاقو سے حملہ کیا تھا جو بعد میں ہلاک ہوا۔
ڈونلڈ گرانٹ کو 2005 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، گرانٹ نے دماغی مسائل کی آڑ میں اپنی سزا کو منسوخ کرنے کے لیے متعدد اپیلیں دائر کیں، ایک آن لائن پٹیشن میں اس کے وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ دماغی صدمے کا شکار ہے جو اس کے بچپن میں اس کے شرابی باپ کی طرف سے پُرتشدد بدسلوکی کی وجہ سے ہوا تھا۔
فائرنگ اسکواڈ کی پیش کش کیوں؟
گرانٹ اور سزائے موت کے ایک اور قیدی، گلبرٹ پوسٹیل نے ایک وفاقی جج سے کہا تھا کہ وہ انھیں ایک عارضی حکم نامہ دے، جو ان کی سزائے موت میں اس وقت تک تاخیر کرے، جب تک کہ عدالت میں اوکلاہوما کا 3 زہریلی انجیکشنز کا طریقہ آئینی نہ قرار دیا جائے۔ تاہم اس پر انھیں متبادل کے طور پر فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے مارے جانے کی پیش کش کی گئی تھی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یہ تیز اور کم تکلیف دہ ہوگا۔
واضح رہے کہ اوکلاہوما کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں گرانٹ اور سزائے موت کے دوسرے قیدیوں نے اپنی سزائے موت کے لیے سکون آور میڈازولم کے استعمال کو چیلنج کیا ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ یہ دوا مہلک انجیکشن کے لیے مناسب نہیں ہے، اور مسائل پیدا کرنے والی کئی سزاؤں میں اس کے استعمال کو نوٹ کیا گیا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں، جان ماریون گرانٹ کو سزائے موت کے دوران الٹیاں لگ گئیں، جس کی وجہ سے اوکلاہوما معافی اور پیرول بورڈ کے ارکان نے سزا کے عمل پر سوالیہ نشان لگا دیا، تاہم، اس کے بعد سے 2 سزائیں، بشمول ڈونلڈ گرانٹ، بغیر کسی مسئلے کے دی جا چکی ہیں۔
اس معاملے پر مقدمے کی سماعت 28 فروری کو شروع ہونے والی ہے، لیکن گرانٹ کی طے شدہ سزا کا دن جمعرات کا تھا، اور دوسرے قیدی پوسٹیل کی موت کی تاریخ 17 فروری مقرر کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں 6 سال کے وقفے کے بعد ریاست اوکلاہوما کی جانب سے سزائے موت کے دوبارہ آغاز کے بعد سے گرانٹ اس سال امریکا میں سزائے موت پانے والا پہلا شخص تھا، جب کہ ریاست میں اس دوران سزائے موت پانے والا تیسرا تھا۔ سزائے موت کے انفارمیشن سینٹر کے مطابق 1976 میں سزائے موت کے دوبارہ آغاز کے بعد سے گرانٹ کی موت امریکا میں 1,541 ویں سزائے موت ہے۔