تازہ ترین

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

کوہ پیماؤں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ آسیب یا کوئی اور حملہ آور

چند دن قبل ہی نیپالی کوہ پیماؤں نے پہلی بار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 کو موسم سرما میں سر کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا، کوہ پیمائی کے دوران بے شمار سنگین واقعات پیش آسکتے ہیں، ایسا ہی کوہ پیمائی کے دوران ہونے ایک واقعہ اب تک دنیا کے لیے معمہ بنا ہوا تھا جسے آسیب زدہ بھی مانا جاتا تھا۔

روس کے کوہ اورال میں پیش آنے والے واقعے کو ڈیالٹو پاس واقعے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

سنہ 1959 کے موسم سرما میں کوہ اروال کے اس مقام پر 9 جوان کوہ پیما پراسرار طور پر ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد سے یہ سائنسدانوں کو دنگ کررہا ہے اور اسے خلائی مخلوق سے لے کر جوہری دھماکے کی آزمائش سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

مگر اب سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ معمہ حل کرلیا ہے۔

جریدے جرنل کمیونیکشن ارتھ اینڈ انوائرمنٹ میں شائع تحقیق میں ان تجربہ کار کوہ پیماؤں کی موت کی وضاحت کی گئی، جن کی منجمد لاشیں کوہ اورال میں مختلف جگہوں سے دریافت کی گئی تھیں۔

جنوری 1959 میں روس کے تجربہ کار 9 کوہ پیماؤں کی ٹیم کوہ اروال پر ٹریکنگ کررہی تھی، جہاں وہ پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔ اس مقام سے کوہ پیماؤں کی ڈائریز اور فلم دریافت ہوئی، جس سے تصدیق ہوئی کہ اس ٹیم نے ڈیڈ ماؤنٹین نامی مقام پر کیمپ لگایا تھا۔

تاہم آدھی رات کو کچھ ایسا ہوا جس کے باعث وہ افراد خیمے سے باہر نکلے اور کوہ اورال کے چاروں طرف بھاگنے لگے، شدید سردی اور برف کے باوجود ان کے جسموں پر مناسب لباس نہیں تھا۔

کئی ہفتوں بعد امدادی ٹیم نے ان کی لاشوں کو کوہ اروال کے مختلف مقامات پر دریافت کیا، جن میں سے 6 کی موت ہائپوتھرمیا (بہت کم درجہ حرارت) کے باعث ہوئی جبکہ باقی 3 کی ہلاکت شدید جسمانی نقصان کے باعث ہوئی۔

ان کے جسم کے اعضا غائب تھے، جیسے ایک کی آنکھیں، دوسرے کی زبان جبکہ ان تینوں کی کھوپڑیوں اور سینے کے ہڈیوں کے ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔

یہ ساری صورتحال نہایت غیر متوقع اور پراسرار تھی کیونکہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی یہ حالت کس وجہ سے ہوئی یا ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔

اس وقت تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کسی نامعلوم مگر طاقتور قدرتی عنصر نے کوہ پیماؤں کو خیمے سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ کچھ حلقوں کے مطابق برفانی انسان کے حملے یا کسی اور جانور کی وجہ سے ایسا ہوا، مگر ان کی اموات کی وضاحت کرنے والی ٹھوس وجہ کا تعین نہیں ہوسکا۔

تاہم اب نئی تحقیق میں ان کوہ پیماؤں کی موت کی وجہ ایک چھوٹے مگر طاقتور ایوا لاانچ کو قرار دیا گیا ہے، جس کے لیے شواہد بھی پیش کیے گئے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اس طرح کا خیال سامنے آیا ہے، درحقیقت اس سے پہلے بھی ایوالانچ کا خیال پیش کیا گیا مگر کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے۔ سنہ 2019 میں روسی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بھی نتیجہ نکالا تھا کہ ایک ایوالانچ اس واقعے کی وجہ بنا، مگر اس وقت اس خیال کو سپورٹ کرنے والا ڈیٹا سامنے نہیں آیا تھا۔

دراصل واقعے کے بعد جائے حادثہ پر کسی قسم کے ایوالانچ کے آثار نہیں ملے تھے۔

تاہم سوئٹزرلینڈ کے اسنو ایوانچ سمولیشن لیبارٹری کی ٹیم نے تجزیاتی ماڈلز، سمولیشنز اور ڈزنی انیمیشن اسٹوڈیو کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے وضاحت کی کہ کس طرح ایک ایوا لانچ اپنے پیچھے شواہد چھوڑے بغیر تباہی مچا سکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایوالانچ اتنا چھوٹا ہوسکتا ہے جس میں برف ایک ٹھوس ڈھلان کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں وقت اور برفباری کے ساتھ تمام تر ملبہ اوجھل ہوجتا ہے مگر ہائیکرز کے لیے خطرہ ضرور ہوتا ہے۔

مگر اس سے یہ وضاحت نہیں ہو سکی کہ 3 کوہ پیماؤں کے جسموں کو نقصان کیسے پہنچا۔

تو اس سوال کے جواب کے لیے تحقیقی ٹیم نے ڈزنی کی فلم فروزن کو دیکھا اور انیمیشن ماڈلز کے سمولیشن ٹولز کے ذریعے تجزیہ کیا کہ ایوالانچ سے جسموں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس سمولیشن کے ذریعے تحقیقی ٹیم نے تعین کیا کہ ایوالانچ اتنا طاقتور ہوسکتا ہے کہ کھوپڑیوں اور سینے کی ہڈیوں کو توڑ سکے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا اس کے حوالے سے شواہد نہ ہونے کے برابر تھے، کیونکہ وہ سب کوہ پیما خیمے سے باہر نکل کر مختلف حصوں کی جانب بھاگ گئے تھے۔

مگر محققین کا خیال یہ ہے کہ جب یہ افراد ایوالانچ سے بچ کر بھاگنے اور اپنے زخمی ساتھیوں کی مدد کی کوشش کر رہے تھے، ان کے زخموں اور شدید سردی ان کے لیے جان لیوا عناصر ثابت ہوئے۔

اس واقعے کے اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جو ابھی بھی حل طلب ہیں۔

Comments

- Advertisement -