تازہ ترین

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

جزیرہ ایسٹر: یہاں صدیوں پہلے سیکڑوں دیو ہیکل مجسمے کیوں نصب کیے گئے؟

ایسٹر آئی لینڈ 1772ء میں دریافت ہوا تھا۔ ان دنوں ایسٹر کا تہوار منایا جارہا تھا اور لوگ اسی مناسبت سے جزیرے کو ایسٹر آئی لینڈ کہنے لگے۔ جنوبی پیسیفک میں واقع یہ جزیرہ 1888ء سے چِلی کی ملکیت ہے۔

قارئین، یہ جزیرہ دنیا بھر میں‌ اپنے اُ‌ن سیکڑوں مجسموں کی وجہ سے مشہور ہے جنھیں آج سے لگ بھگ سات، آٹھ سو سال پہلے انسانی ہاتھوں نے وجود بخشا تھا۔ انھیں موائی (Moai) مجسمے کہا جاتا ہے۔

ایسٹر جزیرہ 24 کلو میٹر لمبا اور اس کی چوڑائی 13 کلومیٹر ہے۔ اس پر نصب کئی نہایت وزنی اور دیو قامت مجمسوں کی تعداد 887 ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اس وقت کے قبائلیوں کے فن نقّاشی و سنگ تراشی کا نمونہ ہیں۔

آج جب جدید ٹیکنالوجی اور بھاری مشینوں کی مدد سے جدید طرزِ تعمیر کی حامل بلند بالا اور دیو ہیکل عمارتیں دیکھ کر ہم حیرت زدہ رہ جاتے ہیں تو یقیناً یہ کئی ٹن وزنی اور دیو قامت مجسمے اُس دور کے معماروں اور ہنر مندوں کا غیرمعمولی کارنامہ اور شاہ کار ہی کہلائیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان وزنی مجسموں کو اپنی جگہ سے اٹھا کر ایک قطار میں بھی کھڑا کیا گیا ہے جو بہت ہی مشکل ثابت ہوا ہو گا اور ایسا کرنے کے لیے سیکڑوں لوگوں کی مدد لی گئی ہو گی۔

ماہرینِ ارضیات کے مطابق زلزلے یا آتش فشاں پھٹنے سے زیرِ زمین گیسیں اور جو کیچڑ وغیرہ اوپر آتی ہے، اس سے زمین کی سطح پر کچھ رقبہ پہاڑ اور ٹیلے کی صورت میں بلند ہوجاتی ہے اور جزیرہ ایسٹر بھی اسی قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مقام پر تین آتش فشاں پھٹے تھے اور یوں یہ جزیرہ وجود میں آیا۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے اندازے کے مطابق موائی مجسمے 1250ء سے 1500ء کے درمیان بنائے گئے تھے۔ 1995ء میں انھیں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کا حصّہ قرار دیا تھا۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اس جزیرے پر آباد راپانوئی قبیلے کے معماروں اور ہنرمندوں نے مل کر انسانی شکل میں ان مجسموں کو بنایا تھا، لیکن ایک ہی طرح کے سیکڑوں مجسمے بناکر ایک ہی قطار میں نصب کا کیا مقصد تھا، یہ واضح نہیں‌۔

اکثر موائی مجسموں کی لمبائی لگ بھگ 5 فٹ سے 33 فٹ جب کہ یہ 82 ٹن تک وزنی ہیں۔ انھیں آتش فشاں کے خشک لاوے اور راکھ سے بنایا گیا ہے جس میں مختلف دوسرے اجزا بھی شامل ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ فن کاروں نے انھیں زمین ہموار کرکے لیٹی ہوئی حالت میں بنایا اور تکمیل کے بعد کئی افراد نے انھیں موٹی رسیوں سے باندھ کر کھڑا کیا ہو گا۔

یہ بھی معلوم نہیں کہ فن کاروں نے ان مجسموں کے صرف سَر اور دھڑ ہی کیوں بنائے اور انھیں پیروں سے کیوں محروم رکھا؟ اس کی کوئی خاص وجہ ہوسکتی ہے۔ ان میں متعدد مجسمے ایسے بھی ہیں جن کی آنکھیں نامکمل چھوڑ دی گئی تھیں۔

مورائی مجسمے جزیرے پر دور دور چبوترا یا پلیٹ فارم بنا کر ان پر نصب کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ساحل سے نزدیک ہیں جن کا منہ خشکی کی جانب ہے۔ چند مجسمے سمندر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

ایک خیال یہ ہے کہ مورائی مجسمے قبائلیوں کے کسی مذہبی عقیدے اور روحانی اعتقاد کا نتیجہ تھے اور ممکن ہے کہ قبائلی اس طرح حریفوں پر اپنی طاقت اور برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں۔ تاہم یہ آج بھی ایک راز ہے کیوں کہ راپانوئی قبائل فنِ‌ تحریر سے ناواقف تھے اور وہاں سے کوئی ایسی کتاب یا الواح نہیں‌ مل سکیں جن کی مدد سے ان مجسموں کے بارے میں کوئی بات سامنے آتی۔

Comments

- Advertisement -