ایڈگر ایلن پو کو انگریزی ادب میں بہت شہرت اور مرتبہ حاصل ہے۔ اسے مختصر افسانہ کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ دنیا اسے ایک بڑا ادیب تسلیم کرتی ہے مگر اس کی زندگی کا انجام بڑا درد ناک ہوا۔ ایڈگر ایلن پو ایک گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔
ایڈگر ایلن پو کا تعلق امریکہ سے تھا۔ اس کی کہانیوں کو فنی تراش کا شاہکار اور کاملیت کا نمونہ کہا جاتا ہے۔ پو ایک عمدہ شاعر بھی تھا اور نقّاد بھی۔ اس کی وجہِ شہرت بالخصوص ڈراؤنے واقعات اور خوف سے بھرپور کہانیاں تھیں۔ ایڈگر ایلن پو نے جرم و سزا کی دنیا سے بھی واقعات کو کہانیوں میں سمویا اور یہ امریکی قارئین میں بہت مقبول ہوئیں۔ مختصر نویسی میں اسے مہارت حاصل ہوگئی تھی اور اسی وصف نے پو کو دیگر مصنفین کے درمیان امتیازی حیثیت دی۔ 7 اکتوبر 1849ء کو پو کا انتقال ہوگیا تھا۔ ایڈگر ایلن پو کی کہانیوں نے عام قارئین کے ساتھ کئی بڑے تخلیق کاروں کو بھی متاثر کیا۔
نقّاد کہتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کی روشنی مغرب کے معاشرہ میں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئی، وہاں ادب میں حقیقت پسندی کے رجحانات بھی پنپنے لگے۔ اسی دور میں لکھاریوں نے متوسط اور محنت کش طبقہ کی زندگی اور ان کے مسائل کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کرنا شروع کیا اور قارئین کی دل چسپی اور ادبی ذوق کی تسکین نے قلم کاروں کو مختصر کہانیاں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اگرچہ یہ ایک قسم کی صحافتی صنف تھی، لیکن جب اسے پو جیسے ادیبوں نے اپنایا تو اس پر دل کشی، جمالیات اور اثر انگیزی غالب آگئی اور ایڈگر ایلن پو وہ ادیب تھا جس نے اس حوالے سے پہل کی۔ اکثر اور نام ور مغربی نقاد اس کا سہرا امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو کے سَر ہی باندھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے مختصر کہانیوں کو ادبی روپ دیا اور اسے فنی طور پر نکھارا۔
ایڈگر ایلن پو نے 1809ء میں بوسٹن، امریکا میں آنکھ کھولی۔ اس کے والدین تھیٹر سے وابستہ تھے اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ بدقسمتی سے ابھی پو اپنے پیروں پر چلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ والد نے اپنے کنبے کو چھوڑ دیا۔ اس کے اگلے ہی برس ایک بیماری نے اس کی ماں کو بھی ہمیشہ کے لیے اس سے چھین لیا۔ تب وہ اپنے ایک عزیز کے گھر رہنے لگا۔ اسے حصولِ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیجا گیا جہاں پو نے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، لاطینی اور ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں اس نے یونیورسٹی آف ورجینیا میں داخلہ لیا مگر تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ اس نے عملی زندگی میں قدم رکھا اور ازدواجی سفر شروع کیا تو گھریلو ناچاقیوں نے بدمزہ کیا۔ خود ایڈگر ایلن پو بھی غصّہ کا تیز اور بدمزاج تھا۔ اس پر بعض عجیب و غریب عادات اور شراب نوشی کی وجہ سے ہمیشہ پریشان اور دوسروں کے لیے ناقابل قبول رہا۔ پو نے جوانی میں مفلسی اور تنگ دستی کے ساتھ اپنی شریکِ حیات کی موت کا صدمہ بھی اٹھایا اور ان سب باتوں نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔
ایڈگر ایلن پو کے تخلیقی سفر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن 1827ء میں اس کی نظموں کا مجموعہ شایع ہوا تھا جس پر ‘اے بوسٹونین‘ (A Bostonian) کا نام درج تھا۔ یہ نظمیں مشہور شاعر لارڈ بائرن کے افکار اور اس کے فن سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھیں اور ان کا موضوع محبّت، عزّتِ نفس اور موت تھا۔ اسی سال پو نے ایک اور فرضی نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ہی قسمت آزمانے فوج میں بھرتی ہو گیا، لیکن اسے وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس ناکامی کے بعد اس نے مستقل لکھنے کا فیصلہ کیا اور اسی فن کو ذریعۂ معاش بنانے کا فیصلہ کرکے نیویارک چلا آیا۔ اسے یہاں ایک اخبار میں نوکری مل گئی اور 1845ء تک اس نے بہت سی کہانیاں، نظمیں اور مضامین سپردِ قلم کیے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پو نے ہی ادیبوں کو سائنس فکشن کی راہ سجھائی تھی۔ ’ٹل ٹیل ہارٹ‘ کے عنوان سے اس نے ایک کہانی 1843 میں لکھی تھی جو ایک نیم دیوانے شخص کی خود کلامی پر مشتمل ہے۔ یہ شخص بار بار خود کو اور اپنے مخاطب کو یقین دلاتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قصّہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اس نے ایک آدمی کو رات کے اندھیرے میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ مقتول کی آنکھیں گِدھ جیسی گدلی اور پژمردہ تھیں اور وہ قاتل کو گھورتی رہتی تھیں۔ پھر ایک رات قاتل نے، جو اس کہانی کا راوی بھی ہے، اس گدلی آنکھوں والے شخص کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس فعل کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔
بطور شاعر اور ادیب شہرت کے ساتھ ساتھ زندگی کے بعض صدمات نے ایڈگر ایلن پو کے دماغ پر شدید اثر ڈالا اور وہ ذہنی مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگیا۔ اس میں بیوی کی اچانک موت اور بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے اضافہ ہوا اور اسی زمانہ میں اس کے بچپن کی تلخیاں اور محرومیاں اس کے اعصاب پر سوار ہوگئیں، جن میں والدین سے دوری اور دوسری مشکلات شامل تھیں۔ نشہ کی حالت میں وہ لوگوں سے الجھتا تھا جس کے باعث سب اس سے دور رہنا چاہتے تھے۔ یوں پو ڈپریشن کا شکار ہو گیا تھا اور ایک روز گلی میں مردہ حالت میں پایا گیا۔
ایڈگر ایلن پو نے 70 سے زائد نظمیں، 60 سے زائد کہانیاں، ایک ناول، اور کئی مضامین یادگار چھوڑے۔ اس ادیب کے بعد آنے والوں نے مختصر کہانیوں اور فکشن کے سفر کو آگے بڑھایا اور پو کی پیروی کی۔
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


