تازہ ترین

اسرائیل کا ایران کے شہر اصفہان پر میزائل حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

سال 2017: پلاسٹک خوردنی اشیا میں تبدیل

سال 2017 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق اس شعبے میں یہ سال خوردنی اشیا کے نام رہا جس میں مختلف پھینک دی جانے والی چیزوں کو کھانے کے قابل بنایا گیا تاکہ کچرے کے ڈھیر میں بدلتی ہماری زمین پر دباؤ میں کچھ کمی آئے۔

آئیں دیکھتے ہیں سائنسدانوں نے رواں برس کن اشیا کو خوردنی اشیا میں تبدیل کیا۔


پانی کی گیند

پانی کی فراہمی کا سب سے عام ذریعہ پلاسٹک کی بوتلیں ہیں جو زمین میں تلف نہ ہونے کے سبب شہروں کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کر رہا ہے۔

ان بوتلوں سے نجات کے لیے کچھ ماہرین نے پانی کی گیندیں ایجاد کر ڈالیں۔ ان گیندوں کو ایک باریک جھلی کی صورت دائرے کی شکل میں تیار کیا گیا اور اس کے اندر پانی بھر دیا گیا۔

پانی کی یہ گیندیں ویسے تو کھائی جاتی ہیں تاہم یہ پیاس بجھانے کا ضروری کام ہی سر انجام دیتی ہیں۔

پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


خوردنی گلاس

انڈونیشیا میں سمندری گھاس سے خوردنی گلاس تیار کیے گئے جو پانی پینے کے کام آسکتے تھے۔ یہ گلاس نہ صرف کھانے کے قابل ہیں بلکہ اگر آپ انہیں پھینکنا چاہیں تو یہ بہت جلد زمین کا حصہ بن کر وہاں خودرو پودے بھی اگا سکتے ہیں۔


الجی جیلی سے بنائی گئی بوتل

آئس لینڈ میں ایک طالب علم نے الجی جیلی کو جما کر بوتلوں کی شکل دے دی۔ اسے اس شکل میں برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی سیال مادہ بھراجائے۔

جیسے ہی اس کے اندر بھرا پانی یا سیال ختم ہوجاتا ہے یہ ٹوٹ جاتی ہے یا گل جاتی ہے۔ اب یہ پھینکنے کے بعد زمین میں نہایت آسانی سے اور بہت کم وقت میں تلف ہوجانے والی شے ہے۔


کھانے والے اسٹرا

کیا آپ جانتے ہیں امریکا میں ہر روز 5 کروڑ پلاسٹک کے اسٹرا مختلف جوسز پینے کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں۔ بظاہر معمولی سا پلاسٹک کا ٹکڑا دکھائی دینے والا یہ اسٹرا بھی کچرے کے ڈھیر میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا میں سمندری گھاس سے اسٹرا تیار کرنے کا تجربہ کیا گیا جسے بے حد پذیرائی ملی۔ اس اسٹرا کو مختلف فلیورز سے بنایا جاتا ہے جس کے باعث لوگ جوس ختم کرنے کے بعد اس اسٹرا کو بھی نہایت مزے سے کھا لیتے ہیں۔


کھانے والا ریپر

دودھ کے پروٹین سے تیار کیے جانے والے باریک ریپر آکسیجن کو جذب نہیں کرسکتے لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔

ان ریپرز کو مختلف اشیا کے ساشے پیکٹ، برگر کے ریپرز اور سبزیاں اور پھل محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان ریپرز سے بنے ساشے کو کھولنے کے بجائے آپ پورا ریپر گرم پانی میں ڈال کر اپنی مطلوبہ شے تیار کرسکتے ہیں۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -