اردو ادب میں جہاں مختلف ثقافتوں، میلوں ٹھیلوں اور عام تہواروں کو موضوع بنایا گیا ہے، وہیں مسلمانوں کے دو بڑے مذہبی اجتماعات کی گہماگہمی اور اس کی تیّاریوں اور ہر خاص و عام کے اہتمام پر بھی شاعروں اور ادیبوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
مسلمانوں کے دو بڑے تہواروں میں سے ایک ’’عید الفطر‘‘ ہے جسے روایتی طور پر ’’میٹھی عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا ’’عیدُ الاضحیٰ‘‘ ہے جسے عام طور پر عیدِ قرباں کہتے ہیں۔ یہاں ہم انہی تہواروں سے متعلق ایک ادبی پارہ نقل کررہے ہیں جس سے قارئین کو یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ چند دہائیوں پہلے عید پر کیا خوب اہتمام اور کیسی تیّاریاں کی جاتی تھیں۔
اس ضمن میں اردو زبان کی معروف ادیب بیگم اختر حسین رائے پوری کی کتاب’’ہم سفر‘‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’پندرہ دن پہلے امّاں دو تھان لٹّھے کے، جو چالیس گز کے ہوتے اور دو تھان مَلمل کے منگا کر ہم بہنوں کے آگے ڈال دیتیں کہ لو، اب اس میں سے عید کے جوڑے سب کے اور اپنے سی لو۔ پہلے تو جناب ہم سارے نوکروں اور اُن کے بچّوں اور بیویوں کے سیتے۔ پھر اپنے بھائیوں کے، بہنوں کے، پھر اپنی باری آتی۔
اتنی ڈھیروں سلائیاں شاموں اور راتوں کو کرتے۔ امّاں کو ہم پر ترس تو نہ آتا، مگر ترس کھا کر ہمارے بھائی لوگ مشین پر سے ہم کو ہٹا کر خود سیدھی والی سلائیوں پر مشین چلانے لگتے۔
عید، بقرعید میں ہمارے مَلمل کے چُنے ہوئے دوپٹوں پر بس ایک پتلا سا گوٹا ٹک جاتا اور وہی لٹّھے کا غرارہ یا تنگ پاجاما اور مَلمل کے کُرتے۔ بس ہو گئے عید کے جوڑے۔
تخت پر بس کپڑے ہی تو حساب سے جما کر رکھنا ہیں۔ پہلے ابّا، پھر اماں کی ساری۔ پھر عُمر کے لحاظ سے باقی سب کے جوڑے۔ ابّا اور لڑکوں کے جوڑوں پر نماز کی ٹوپیاں، موزے اور رومال۔ ہر ایک کے جوڑے کے سامنے اس کے جوتے اور چپلیں۔
جو بھی لڑکے اور لڑکیاں، کزن اور دوستوں کے بچّے ہوتے، اُن سب کے جوڑے بھی۔ صبح سویرے ہر ایک اپنا اپنا جوڑا اٹھا لیتا۔ مرد اور لڑکے پہلے نہا کر کالی شیروانیاں پہن کر عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے۔ ہم جلدی جلدی پہلے اندر اور باہر کے کھانوں کی میزوں پر طرح طرح کی نمکین اور میٹھی چیزیں لگا کر آخر میں سویّوں کے ڈونگے رکھ کر جلدی جلدی نہا دھو کر نیا جوڑا پہن کر تیار ہو جاتے۔
اب ابّا اور سب بھائی لوگ عید گاہ سے واپس آ کر عید ملتے۔ پھر ابّا ہم سب کو عیدی دیتے۔ دو، دو روپے اور اگر دادا ابّا آئے ہوتے، تو وہ چار آنے دیتے۔ کوئی ایک بہن عطر کی شیشی لے کر سب کے عطر لگا دیتی۔ اگر بقر عید ہے، تو ابّا اور بھائی باہر جا کر قربانی کرتے۔ جب کلیجی گرما گرم بُھن کر میز پر آ جاتی، تو سب ناشتا کرتے۔‘‘