نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
اینگس نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو جمی اور جیک نے جیزے کو اندر لے جا کر ایک بستر پر لٹا دیا۔ اینگس جلدی سے پانی گرم کر کے ایک تولیہ لے آیا اور جیک اس کے زخم صاف کرنے لگا۔ جیزے کو زخم نہ صرف جلنے سے آئے تھے بلکہ متعدد زخم کٹ اور رگڑ سے بھی آئے تھے۔ کچھ دیر بعد جیک نے اس پر ایک کمبل ڈال دیا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔ جمی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے اینگس سے مخاطب ہوا: ’’مجھے بیتے دن یاد آ گئے ہیں۔ دوگان اور اس کا جادوگر روزانہ ہمارے لوگوں پر حملے کر کے ظلم ڈھاتا تھا اور یہ سب محض لالچ کی وجہ سے تھا۔ اسے جادوئی گولا درکار تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے کنگ کیگان سے چھین کر خود اس کی طاقتیں استعمال کرے اور دنیا پر اپنی حکمرانی کا سکہ جما دے۔ دوگان تو فنا ہو گیا لیکن اس کا جادوگر پہلان کسی طرح روح کی صورت واپس آ گیا ہے اور وہ دوگان کے وارث ڈریٹن کے ساتھ رابطہ کرنے لگا ہے۔‘‘
اینگس اٹھ کر کچن کی طرف چلے گئے۔ چائے کے لیے کیتلی چولھے پر رکھی اور کچھ دیر بعد دو پیالیوں میں چائے بھر کر واپس آ گئے۔ ایک پیالی جیک کو تھما کر خود بھی صوفے پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ’’میں بھی کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ فیونا جب پہلی بار وہ کتاب میرے پاس آئی تو میں نے بہت دل چسپی سے اسے پڑھا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سب کچھ ہوگا۔ آخر تم لوگ کس طرح سے زندگی کی طرف لوٹے ہو۔ میں جانتا ہوں کہ زرومنا نے تم سب پر جادو کیا ہے لیکن … لیکن یہ اکیسویں صدی ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے جینے والا کوئی شخص پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموشی سے چائے پینے لگے۔
’’جادوگر بہت طاقت ور ہوتے ہیں اینگس۔‘‘ جیک نے جواب دیا۔ ’’مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ کیسے کیا گیا، کیوں کہ میں جادوگر نہیں ہوں۔ بس، جب قیمتی پتھر جادوئی گیند میں واپس رکھا جاتا ہے، میں پھر سے انسانی روپ میں آ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں، جیتا ہوں، اور سانس لیتا ہوں۔ میں نے خود کو قلعہ آذر میں پایا تھا جہاں دوسروں کی طرح میں کبھی گیا ہی نہیں تھا۔ پہلی بات جو میرے دماغ میں خود بہ خود آئی، وہ یہی تھی کہ مجھے اس گھر پہنچنا ہے۔‘‘
جمی بھی صوفے پر پہلو بدل کر بولا: ’’اینگس، میری کہانی بھی ایسی ہی ہے لیکن میں پہلے مک ایلسٹر کے گھر پہنچا جہاں جونی ٹھہرا ہوا تھا۔ جیسے جیسے قیمتی پتھر جادوئی گیند میں آتے جائیں گے، ویسے ویسے سارے افراد زندگی کی طرف لوٹیں گے اور ہم بارہ ایک بار پھر اکھٹے ہو جائیں گے۔‘‘ اس نے پیالی فرش پر رکھتے ہوئے بات جاری رکھی: ’’میری یادداشت کچھ کچھ دھندلا گئی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب تمام قیمتی پتھر گولے میں آ جائیں گے تب ہمی آگے کا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
جیک نے جیزے پر نگاہیں جما کر کہا: ’’کنگ دوگان کے وارث کے ہاتھوں جیزے زخمی پڑا ہے، اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈریٹن شیطان کی طرح طاقت ور ہوگا، جیسا کہ کنگ دوگان تھا۔ پہلان اس کی طرف ہے اور ہمیں ان سے دو بہ دو جنگ لڑنی ہے۔ میرے خیال میں بچے کل صبح آ کر نئے سفر پر نکل جائیں گے نا۔‘‘
’’ہاں وہ کل صبح آ جائیں گے۔‘‘ اینگس نے جواب دیا: ’’ایسا لگتا ہے کہ ڈریٹن اور پہلان کی خواہش ہے کہ پتھر حاصل کرنے کے لیے خطرات ان کی بجائے بچے مول لیں۔ کیا آپ ایسا کچھ نہیں جانتے جس سے ان بچوں کی مدد ہو سکے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ جیزے کی طرف چند لمحے دیکھتے رہے پھر جیسے ایک دم کچھ یاد آیا، اور کہا: ’’میرے خیال میں مجھے کتاب مزید پڑھنی چاہیے۔ چوں کہ جونی تو مائری کے ہاں ہے تو میں کتاب کے مزید کچھ صفحات ترجمہ کر لیتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ مدد کے لیے کوئی راستہ ملتا ہے یا نہیں۔‘‘
اینگس اٹھ کر الماری کی طرف گئے، کتاب نکال کر واپس صوفے پر آ گئے۔ ان کی بے قرار نگاہیں گیلک زبان کے الفاظ اور علامات پر پھسلنے لگیں۔ ایسے میں جمی کہنے لگا: ’’اب معاملات ہمارے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، ہم صرف یہاں اینگس، مائری اور جادوئی گولے کی حفاظت ہی کر سکتے ہیں۔ کچھ نہیں پتا کہ ڈریٹن کا اگلا قدم کیا ہوگا!‘‘
یہ کہہ کر اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
(جاری ہے…)

Comments