تازہ ترین

اسرائیل کا ایران کے شہر اصفہان پر میزائل حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

چار مویشیوں‌ کی وجہ سے ایجاد ہونے والا انگریزی زبان کا ایک لفظ

ٹیکساس ایک وسیع و عریض ریاست ہے جس نے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال قبل ریاست ہائے متحدہ سے ناتا جوڑا تھا اور اب یہ امریکا کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔

وسیع سبزہ زاروں پر مشتمل اس علاقے کی زمین انتہائی زرخیز تھی۔ اپنی اسی خصوصیت کی وجہ سے یہ چراگاہوں کے لیے بھی نہایت موزوں علاقہ تھا۔ تاریخ نویسوں کے مطابق انیسویں صدی کے آغاز میں ریاست ورجینیا سے یہاں آنے والے سیموئل آگسٹس میورک کو یہاں کے حسین نظاروں، صاف ستھری آب و ہوا نے اتنا متأثر کیا کہ وہ یہیں آباد ہو گیا۔

اس نے یہاں زمین کا ایک ٹکڑا خریدا اور اس پر گھر بنایا جب کہ باقی کو معاش اور گزر بسر کے لیے آباد کرلیا۔
قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور اپنی محنت سے تھوڑے ہی عرصے میں وہ علاقے کا بڑا زمیں دار بن گیا۔

کہتے ہیں ایک روز کوئی اجنبی اس سے ملنے آیا اور ایک عجیب بات کہی۔ اس اجنبی کا کہنا تھا کہ برسوں پہلےاس نے میورک سے کچھ رقم ادھار لی تھی اور اس اب اپنے سَر سے یہ بوجھ اتارنا چاہتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ وہ میورک کو قرض کی رقم کی جگہ دو گائے اور دو بیل دینا چاہتا ہے۔

میورک مویشی نہیں پالنا چاہتا تھا، مگر اس شخص کے صرار پر وہ چوپائے قبول کرلیے اور انھیں اپنی زمینوں پر آزاد چھوڑ دیا۔

میورک کو یہ جاننے میں کوئی دل چسپی نہ تھی کہ وہ چوپائے کیسے ہیں اور کوئی انھیں چُرا کر تو نہیں لے گیا۔ وہ گائے اور بیل کھلی فضا اور سر سبز چراگاہوں میں خوب مزے سے گھومتے پھرتے اور خوب کھا پی کر موٹے تازے ہو گئے تھے۔

اس دوران جانور افزائشِ نسل بھی کرتے رہے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ میورک کو ان کی کوئی پروا نہ تھی، مگر علاقے کے دوسرے زمیں داروں نے مشورہ دیا کہ یہ تمھارے جانور ہیں، ان کی کھال پر کوئی نشان داغ دو تاکہ نشانی رہے۔

یہ ایک عام طریقہ تھا اور آج بھی رائج ہے کہ مالک اپنے مویشیوں کی کھال پر لوہے کی سلاخ کی مدد سے یا آہنی مہر کو گرم کر کے جسم داغ دیتا اور وہ مخصوص علامت یا نشان اس پر ظاہر ہو جاتا، لیکن میورک نے اس مشورے کے جواب میں بھی کمال بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا چوں کہ علاقے کے ہر مویشی کی پُشت پر مالک کی کوئی نشان داغ رکھا ہے اس لیے جو جانور بغیر نشان کا ہو گا، سمجھو وہ میرا ہے۔

اس پر سب چُپ ہو گئے۔ سبزہ زاروں میں بغیر نشان کے گائے بیل نظر آتے تو مقامی لوگ یہی مانتے کہ وہ میورک کا ہو گا۔ رفتہ رفتہ بغیر نشان کے جانوروں‌ کے لیے وہاں‌ لوگوں‌ نے صرف میورک بولنا شروع کر دیا اور یوں ایک لفظ ایجاد ہوا جو بعد میں لغت کا حصّہ بنا اور بول چال میں داخل ہو گیا۔

ابتدا میں تو اس لفظ کو ایسے جانوروں کے لیے برتا گیا جو آزاد پھرتے ہوں یا انھیں آوارہ اور بھٹکا ہوا خیال کیا جائے، مگر بعد میں اس لفظ نے نئے معنیٰ پہنے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ جانور کی تخصیص نہ رہی اور یہ عمومی اسمِ صفت بن گیا۔ یعنی یہ ہر اُس شخص کے لیے برتا جانے لگا جو کوئی نئی طرز ایجاد کرے۔ اسے انوکھے پن یا جداگانہ طرز اور منفرد رویے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔

Comments

- Advertisement -