تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

قرآنی آیات کو حذف کرنے کے فرانسیسی مطالبے پر ترک صدر کا سخت ردعمل

انقرہ: ترک صدر طیب اردگان نے فرانس کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس منشور کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں فرانس کے چوٹی کے مفکرین و سیاستدانوں نے قرآن پاک سے چند آیات حذف کردینے کا مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ ماہ 21 اپریل کو سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی اور سابق وزیر اعظم مینوئیل ولاز سمیت 300 معروف فرانسیسی اسکالرز، مصنفین اور سیاستدانوں کا دستخط شدہ ایک منشور فرانسیسی اخبار میں شائع کیا گیا جس میں کہا گیا کہ قرآن پاک سے چند آیات کو حذف کردیا جائے۔

منشور میں کہا گیا کہ قرآن کی یہ آیات ’تشدد پر ابھارتے ہوئے یہودیوں اور عیسائیوں کو سزا دینے اور انہیں قتل کرنے کی تلقین کرتی ہیں اور اسلام کو نہ ماننے والوں کو سزا دینے کی ترغیب دیتی ہیں‘۔

منشور میں کہا گیا کہ ان آیات کو حذف کردیا جائے تاکہ قرآن کو ماننے والا کوئی شخص کسی جرم کے ارتکاب کے لیے مقدس آیات کا سہارا نہ لے۔

ترک صدر طیب اردگان نے اپنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پارلیمنٹری گروپ سے میٹنگ کے دوران کہا کہ اس منشور پر دستخط کرنے والے قرآن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ انہوں نے کبھی خود اپنی مذہبی کتب انجیل، زبور اور تورات بھی نہیں پڑھی ہوں گی۔ اگر انہوں نے اپنی کتب پڑھی ہوتیں تو وہ ان پر پابندی عائد کرنے پر غور کرتے۔

اردگان نے کہا کہ اگر آپ ہماری مذہبی کتاب کو نشانہ بنائیں گے تو جواباً ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ’ہم آپ کی سطح پر آکر آپ کی مذہبی اور مقدس اقدار کو نشانہ نہیں بنائیں گے‘۔

ترکی کی اپوزیشن پارٹی ری پبلکن پیپلز پارٹی کے لیڈر کمال قلیچ دار اوغلو نے صدر اردگان سے بھی زیادہ سخت ردعمل دیا۔

انہوں نے کہا کہ فرانس کا یہ اقدام القاعدہ، النصرہ اور داعش جیسی جماعتوں کے طرز فکر کی عکاسی کرتا ہے۔

اپنی جماعت کے اراکین سے ایک میٹنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ان فرانسیسی شخصیات کا کہنا ہے کہ ان آیات کو اس لیے نکالا جائے کیونکہ یہ فرسودہ ہوچکی ہیں۔ ’فرسودہ وہ آیات نہیں بلکہ آپ خود ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ آپ کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ آپ القاعدہ اور داعش کی حمایت کرتے ہیں۔ ’اگر آپ ان دہشت گرد جماعتوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں جو اپنے مکروہ افعال کے لیے مذہب کا سہارا لیتی ہیں، تو آپ کو کوئی نہیں روک سکتا‘۔

کمال اوغلو نے مزید کہا کہ ہم تمام مذہبی کتب کا احترام کرتے ہیں۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور ساری دنیا نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ اسلام میں تشدد یا نفرت کا کوئی ذکر نہیں البتہ جابجا امن قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ’منشور پر دستخط کرنے والے نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے‘۔

کمال اوغلو نے یہ بھی تجویز دی کہ منشور پر دستخط کرنے والے تمام افراد حضور اکرمﷺ کا آخری خطبہ حج پڑھیں جسے دنیا کا پہلا انسانی حقوق کا ضابطہ اخلاق مانا جاتا ہے۔


خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

Comments

- Advertisement -