اردو کے نام وَر شاعر اور ادیب ڈاکٹر حنیف ترین انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 69 سال تھی۔ ڈاکٹر حنیف ترین کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ 1951ء میں بھارت کے ضلع مراد آباد کے علاقے سنبھل میں آنکھ کھولنے والے حنیف ترین روزگار کے سلسلے میں کئی برس تک سعودی عرب میں مقیم رہے۔ پاک و ہند کے علمی و ادبی حلقوں نے ان کی رحلت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا خاندانی نام حنیف شاہ خان ترین تھا جب کہ حنیف ان کا تخلص تھا۔ وہ طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ حنیف ترین عالمی اردو مجلس، دہلی کے صدر کی حیثیت سے بھی متحرک رہے۔ ان کی تصنیفات میں ’’ربابِ صحرا‘‘، ’’کشتِ غزل نما‘‘، ’’زمین لا پتا رہی‘‘، ’’ابابیلیں نہیں آئیں‘‘، ’’باغی سچے ہوتے ہیں‘‘ شامل ہیں۔
ان کی موت حرکتِ قلب بند ہوجانے سے واقع ہوئی۔ ڈاکٹر حنیف ترین راولپورہ، سری نگر میں سکونت پزیر تھے جہاں مقامی قبرستان میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کی ایک غزل دیکھیے
آئیے آسماں کی اور چلیں
ساتھ لے کر زمیں کا شور چلیں
چاند الفت کا استعارہ ہے
جس کی جانب سبھی چکور چلیں
یوں دبے پاؤں آئی تیری یاد
جیسے چپکے سے شب میں چور چلیں
دل کی دنیا عجیب دنیا ہے
عقل کے اس پہ کچھ نہ زور چلیں
سبز رت چھائی یوں ان آنکھوں کی
جس طرح ناچ ناچ مور چلیں
تم بھی یوں مجھ کو آ کے لے جاؤ
جیسے لے کر پتنگیں ڈور چلیں